(۹۶) ایک حَجَّن کے طفیل سب کاحج قبول ہو گیا
حضرتِ سیِّدَتُنا رابِعہ عَدَوِیَّہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِانے پیدل اور وہ بھی ننگے پاؤں حج کیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کو جو بھی کھانا عطا فرماتا ایثار کر دیتیں ۔ کعبۂ مُشَرَّفہ کے قریب پہنچتے ہی بے ہوش ہو کر گر پڑیں ۔جب ہوش میں آئیں تو اپنا رُخسار بیتُ اللہ شریف پر رکھ کرعرض کی: ’’ یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! یہ تیرے بندوں کی پناہ گاہ ہے اورتُو ان سے مَحَبَّتفرماتا ہے، مولیٰ! اب تو آنکھوں میں آنسو بھی ختم ہوچکے ہیں ۔ ‘‘ پھرطواف کیا ، سعی کرنے کے بعدجب وُقوفِ عَرَفہ کا ارادہ کیا توباری کے دن شُروع ہو گئے، روتے ہوئے عرض گزار ہوئیں : ’’اے میرے مالِک و مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! اگر یہ مُعامَلہ تیرے سوا کسی غیرکی طرف سے ہوتاتو میں ضَرور تیری بارگاہ میں شِکایت کرتی مگر یہ تو تیری ہی مَشِیَّت (یعنی مرضی ) سے ہوا ہے لہٰذا شکوہ کیوں کرکرسکتی ہوں ! ‘‘ یہ کہتے ہی اُنہیں ہاتفِ غیبی سے آواز آئی: ’’اے رابِعہ! ہم نے تیرے سبب تمام حاجیوں کا حج قَبو ل کرلیا اور تیری ا ِس کمی کی وجہ سے ان کی کَمِیاں بھی پوری کر دِیں ۔ (الروض الفائق ص۶۰ ) اللہعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اوران کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
علی کے واسطے سورج کو پھیرنے والے
اشارہ کردو کہ میرا بھی کام ہو جائے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۹۷) پیدل سفر حج کرنے والی نابینا بُڑھیا
حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّون مِصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدَ تُنا اُمِّ داب علیھارحمۃُ اللہ الوھّابکا شُمار بُلند پایہ صالِحات و عابِدات میں ہوتاتھا۔ہر سال مدینۂ منو ّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًسے مکّۂ معظمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًپیدل حج کرنے آیاکرتی تھیں ۔اُن کی عُمر 90 برس ہو ئی تو بینائی چلی گئی۔ جب حج کا موسِم ِ بہارآیاتو کچھ حَجَّنَیں سفرِ حج پر روانگی سے پہلے زیارت کے لئے حاضِر ہوئیں ، آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِانے فَرطِ شوق سے بے قرار ہوکر ربِّ غفّار عَزَّوَجَلَّ کے دربار میں عَرْض کی : ’’یااللہ عَزَّوَجَلَّ! تیری عزّت کی قسم! اگر چِہ میری آنکھوں کا نور جا چکا ہے مگر تیرے دربار کی حاضِری کے شوق کے انوار اب بھی باقی ہیں ۔ ‘‘ پھر اِحرام باندھ کر ’’لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ‘‘ کہتے ہوئے حج کے قافِلے کے ساتھ چل پڑیں ۔ آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہا عورتوں کے آگے آگے چلتیں اور چلنے میں ان سے سبقت لے جاتیں تھیں ۔
حضرت سیِّدُنا ذُوالنُّون مِصری علیہ رحمۃُ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ میں ان کے حال پر بڑا مُتَعَجِّبتھا کہ ہِاتف ِ غیبی سنائی دی: ’’اے ذُوالنُّون ! کیا تم اُس بڑھیا پر تَعَجُّب کرتے ہو جسے اپنے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کے گھر کا شَوق ہے، پس اللہ عَزَّوَجَلَّ نے لُطف و کرم فرماتے ہوئے اُسے اپنے گھر کی طرف چلا دیا اور اِس کی طاقت عطا فرمائی۔ ‘‘ (الروض الفائق ص۱۴۸ ملخصا) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور ان کے صَدقے ہماریبے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دیدیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ