غیروں کی جفا یاد نہ اپنوں کی وفا یاد
اب کچھ بھی نہیں ہم کو مدینے کے سوا یاد
(ایضا۱۵۵تا۱۵۶)
اللہعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۰۸) مدینے کا مُسافر ہند سے پہنچا مدینے میں
صدرُالْاَ فاضِل حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی زبردست عاشقِ رسول تھے۔آپ کے بارے میں یہ ایمان افروز واقعہ سگِ مدینہ عفی عنہ کو آپ کے داماد حکیم سیِّد یعقوب علی صاحِب (مرحوم) نے سُنایا تھا: مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان حجِّ بَیتُ اللہپر تشریف لے گئے ۔ جب وہ مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًسرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربارِ گُہربار میں حاضِر ہوئے تو سنہری جالیوں کے قریب دیکھا کہ حضرتِ صَدْرُ الافاضِل عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَادِل بھی مَجمع میں موجود ہیں ۔ملاقات کی ہمّت نہ ہوئی کیونکہ باادب لوگ وہاں بات چیت نہیں کر تے ۔صلوٰۃ و سلام سے فارِغ ہونے کے بعد باہَر تلاش کیا مگرزیارت نہ ہوئی۔ حضرتِ شیخُ الْفَضِیلَت، شیخُ العَرَبِ وَالْعَجَم قطبِ مدینہ سیِّدی و مولائی ضیا ء الدِّین احمد قادِری رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعادِلکے دربار ِفَیض آثار پر حاضِر ہوئے کہ عَرَب و عَجَم کے عُلَمائے حق اور مَشائخِ کرام حَرَمَیْنِ طَیِّبَینْکی حاضِری کے دوران حضرت شیخُ الْفَضِیلَت عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کی زِیارت کے لئے ضَرور حاضِر ہوتے تھے۔ وہاں بھی حضرتِ صَدرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللہ العادِل کے مُتَعلِّقْ کوئی معلومات حاصِل نہ ہوئیں ۔حیران تھے کہ صَدرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللہ العادِل اگر تشریف لائے ہیں تو کہا ں گئے! دَرِیں اَثنا مُراد آباد (ہند) سے تار حضرت شیخُ الْفَضِیلَت رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ کے آستانِ عَرْش نِشان پر آیا کہ فُلاں دن فُلاں وقت حضرتِ صَدرُ الافاضِل مولانا نعیم ُالدِّین صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلیہ کامُراد آباد میں وِصال ہو گیا ہے ۔مُفَسّرشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان نے جب وقت مِلایا تو وُہی وقت تھا جس وقت سنہری جالیوں کے قریب صَدرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللہ العادِل نظر آئے تھے ، فورا سمجھ گئے کہ جیسے ہی اِنْتِقال فرمایا، بارگاہِ رسالَت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں صلوٰۃسلام کے لئے حاضِر ہوگئے۔ ؎
مدینے کا مُسافِر ہند سے پہنچا مدینے میں
قدم رکھنے کی نَوبَت بھی نہ آئی تھی سفینے میں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۰۹) اے مدینے کے درد تیری جگہ میرے دل میں ہے
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان نے ۱۳۹۰ ھ میں حج و زیارت کی سعادت حاصِل کی، اِس ضِمْن میں سفرِ مدینہ کاایک ایمان افروز واقِعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں پھسل کر گر گیا داہنے ہاتھ کی کلائی کی ہڈّی ٹوٹ گئی، درد زیادہ ہوا تو میں نے اُسے بوسہ دیکر کہا: اے مدینے کے درد تیری جگہ میرے دل میں ہے تو تو مجھے یار کے دروازے سے ملا ہے۔