عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

تِرا درد میرا دَرماں   تِرا غم مِری خوشی ہے

مجھے درد دینے والے تری بندہ پروری ہے

دَرد تو اُسی وَقْت سے غائب ہو گیا مگر ہاتھ کام نہیں   کرتا تھا،  17دن کے بعد مُستَشفٰی ملک یعنی شاہی اَسْپتال میں   ایکسرے لیا تو ہڈّی کے دو ٹکڑے آئے جن میں   قدرے فاصِلہ ہے مگر ہم نے علاج نہیں   کرایا ، پھر آہِستہ آہِستہ ہاتھ کام بھی کرنے لگا،   مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے اس اَسْپتال کے ڈاکٹرمحمد اسمعٰیل نے کہا کہ یہ خاص کرشمہ ہوا ہے کہ یہ ہاتھ طِبّی لحاظ سے حَرَکت بھی نہیں   کر سکتا،  وہ ایکسرے میرے پاس ہے،  ہڈی اب تک ٹوٹی ہوئی ہے،  اس ٹوٹے ہاتھ سے تفسیر لکھ رہا ہوں   ،  میں   نے اپنے اس ٹوٹے ہوئے ہاتھ کا علاج صِرْف یہ کیا کہ آستانہ ٔ عالیہ پر کھڑے ہو کر عرض کیاکہ حضور ! میرا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے،  اے عبدُاللہبِن عَتِیْک کی ٹوٹی پنڈلی جوڑنے والے! اے مُعَاذ بِن عَفْرَاء  کا ٹوٹا بازو جوڑ دینے والے میرا ٹوٹا ہاتھ جوڑ دو۔ (تفسیرِ نعیمی ج ۹ ص۳۸۸)  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحْمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔  اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

چاند کو توڑ کے پھر جوڑنے والے آجا

ہم بھی ٹوٹی ہوئی تقدیر لئے پھرتے ہیں   

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۱۱۰) جنَّتُ البقیع میں   لاشوں   کے تَبادلے

          مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّتحضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان  فرماتے ہیں   :  حج میں   میرے ساتھ ایک پنجابی بُزُرْگ تھے جن کا نام تھا صوفی محمد حسین ، وہ مجھ سے فرمانے لگے کہ ایک بار میں   شاہ عبدُالحق مہا جِرالٰہ آبادی کی خدمت میں   حاضِر ہوا اور عَرْض کیا کہ حدیث شریف میں   تو آتا ہے کہ ’’ہمارا مدینہ بھٹّی ہے جیسے کہ بھٹّی لوہے کے مَیل کو نکال دیتی ہے ایسے ہی زمینِ مدینہ نااَہل کواپنے سے نکال دیتی ہے۔ ‘‘ حالانکہ مُرتَد اور منافق بھی مدینۂ پاک میں   مر کر یہاں   ہی دَفْن ہو جاتے ہیں   پھر اس حدیث کامطلب کیا ہے؟  شاہ صاحِب نے مجھے کان پکڑ کرنکلوا دیا! میں   حیران تھا کہ مجھے کس قُصُور میں   نکالاگیا!  رات کوخواب میں   دیکھا کہ مدینۂ منورہ کے قبرِستان یعنی جنتُ البقیع میں   کُھدائی ہو رہی ہے اور اُونٹوں   پر باہَر سے لاشیں   آ رہی ہیں   اوریہاں   سے باہَر جارہی ہیں   میں   ان لوگوں   کے پاس گیا اور پوچھاکہ کیاکر رہے ہو؟ وہ بولے کہ ’’جو نا اَہل یہاں   دَفْن ہو گئے ہیں   اُن کو باہَر پہنچا رہے ہیں   اور عُشّاقِ مدینہ کی ان لاشوں   کو جواورجگہ دَفْن ہو گئی ہیں   یہاں   لارہے ہیں   ۔ ‘‘ دوسرے دن پھر شاہ صاحِب کی خدمت میں   حاضِر ہوا، آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا کہ :   اب سمجھے!  حدیث کا مطلب یہ ہے اور کل تم نے اَغْیار (یعنی غیروں   )  میں   اَسرار  (یعنی بھید)  پوچھے تھے جس کی تمہیں   سزا دی گئی تھی۔  (تفسیرِ نعیمی ج ا ص ۷۶۶)  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحْمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

بقیعِ پاک میں   عطارؔ دَفن ہو جائے

برائے غوث و رضا از پئے ضِیا یاربّ

 (وسائلِ بخشش ص۹۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 

Index