ترجَمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کی طرف رُجوع لاؤ اور اُس کے حُضُور گردن رکھو قبل اس کے کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہاری مدد نہ ہو ۔
ہم نے اُس سے کچھ اور بھی سُوالات کئے جن کے جوابات دیتے دیتے اُس نے یکایک ایک زوردار چیخ ماری اوراُس کی روح قَفَسِ عُنصُری سے پرواز کر گئی۔ ہم نے اُسے یہاں دَفن کردیا اور یہ اس کا مزار ہے (اللہ اُس سے راضی ہو) ۔ حضرتِ سیِّدُناابراہیم خواص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں مرحوم جوان کے اَوصاف سُن کر بَہُت مُتَأثِّر (مُ۔تَ۔اَثْ۔ثِر) ہوا اور عقیدت سے میں مزار شریف کے قریب گیا تو اُس کے سرہانے نرگِس کے پھولوں کا ایک بَہُت بڑا گُلدَستہ رکھا تھا اوریہ عبارت لکھی ہوئی تھی ھٰذَا قَبْرُ حَبِیْبِ اللہ قَتِیْلِ الْغَیْرَۃِ یعنی یہ اللہ تَعَالٰی کے دوست کی قبر ہے اسے’’ غیرت ‘‘ نے قَتْل کیا ہے ۔ اور ایک وَرَق پر ’’اَلِاْ نَابَۃ ‘‘ کا معنیٰ لکھا تھا ۔پھر جِنّات نے مجھ سے اُس آیت کی تفسیر پوچھی تو میں نے بیان کردی۔وہ بَہُت خوش ہوئے اوران کاآپَسی اختِلاف واِضطِراب جاتارہا اور کہنے لگے: ہمیں ہمارے مسئلے کا کافی وشافی جواب مل گیا۔ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خواص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : پھر مجھے نیند آگئی، جب بیدار ہوا تو (مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً ) میں تَنعیم کے مقام پرحضرتِ سیِّدَ تُنا عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی مسجدکے پاس اپنے آپ کو پایا اورمیرے پاس ایک’’ پھولوں کا گُلدستہ ‘‘ موجودتھا جو سال بھر تَرو تازہ رہا پھر کچھ عرصے بعد وہ خود بخود غائب ہوگیا۔ (لقط المرجان ص۲۴۰مُلخّصاً) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
تَمنّا ہے درختوں پر ترے روضے کے جا بیٹھے
قَفَس جس وقت ٹوٹے طائرِ روحِ مُقَیَّد کا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۲۱) عجیب وغریب چھوٹا سا پرندہ
حضرتِ سیِّدُنا وَہْب اورحضر تِ سیِّدُنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما کی ہر سال حج کے موسِمِ بہار میں مسجدِخَیْف شریف کے اندر ملا قات ہوا کرتی تھی۔ ایک شب جب کہ بِھیڑ چَھٹ چکی تھی اوراکثر حُجّاجِ کرام سوچکے تھے، البتّہ بعض حُجّاجِ کرام ان دونوں حضرات کے ساتھ دینی گفتگوکررہے تھے، یکایک ایک عجیب وغریب چھوٹا ساپرندہ آیا اور حضرتِ سیِّدُناوَہْبْ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ایک جانب حَلقے میں بیٹھ گیا اورسلام کیا ، حضرتِ سیِّدُناوَہْب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اُس کے سلام کا جواب دیا اور پوچھا : تم کون ہو؟ اُس نے جواب دیا: میں ایک مسلمان جِنّ ہوں ۔پوچھا: کہئے کیسے آنا ہوا؟ بولا: ’’کیا آپ یہ پسند نہیں فرماتے کہ ہم آپ کی مجلس میں بیٹھیں اور عِلم حاصِل کریں ! ‘‘ ہمارے اندر آپ سے روایات بیان کرنے والے بَہُت سے جِنّاتہیں ، ہم آپ حضرات کے ساتھ بَہُت سے کاموں میں شریک ہوتے ہیں مَثَلاًنَماز، جِہاد، بیماروں کی عِیادت، نَمازِجنازہ اورحج وعمرہ وغیرہا نیزآپ سے علم حاصل کرتے اور قراٰنِ کریم کی تلاوت سنتے ہیں ۔ (کتاب الھواتف لابن ابی الدنیا ج ۲ ص ۵۲۶ رقم ۱۷۷) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
عالَمِ وَجْد میں رَقْصاں مِرا پَر پَر ہوتا
کاش! میں گُنْبدِ خضرا کا کبوتر ہوتا