اپنے حج و عمرے کی تعداد بیان کرنا ہرصورت میں گناہ نہیں ، حدیثِ پاک میں ہے: اِ نَّـمَـا الْاَعْـمَـالُ بِـالـنِّـیَــات یعنی اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے۔ (بخاری ج ۱ ص ۲ حدیث ۱) اگر کوئی تَحْدِیثِ نعمت (یعنی اپنے اوپر نعمتِ الٰہی کی خبردینے) کیلئے اپنے حج کی تعداد بیان کرے تو حَرَج نہیں مگر عِلْم ِ دین اور صُحبتِ اَخْیار کی کمی کے باعِث فی زمانہ اصلاحِ نیّت بے حد دشوار اور رِیاکاری کا خطرہ شدید۔ فرض کیجئے! آپ نے بِغیر پوچھے کسی کو بتادیا کہ’’ میں نے دو حج کئے ہیں ۔ ‘‘ اس پر اگروہ پوچھ بیٹھے کہ جناب! مجھے بتانے کی ضَرورت کیسے پیش آئی؟ اب اگر آپ نے گھبرا کر کہہ دیا کہ تَحْدیثِ نعمت (اللہ تَعَالٰی کی نعمت کا چرچا کرنے) کیلئے عرض کیا ہے۔ اِس پر ہوسکتا ہے کہ سائل خاموش ہوجائے، مگر غور فرمالیجئے! کیا یہ کہتے وَقْت کہ ’’میں نے دو حج کئے ہیں ‘‘ واقِعی آپ کے دِل میں تحدیثِ نعمت یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمت کا چرچا کرنے کی نیّت تھی؟ اگر تھی پھر تو ٹھیک ورنہ جھوٹ کے گناہ کا وَبال سَرپڑا اور’’دِل میں کچھ زَبان پر کچھ ‘‘ کی وجہ سے نِفاق اور بتاتے وَقْت اگر مَعَاذَاللہ عَزَّ وَجَلَّدل میں ریا اور دکھاوے کا ارادہ تھا تو رِیاکارانہ عمل کو تحدیثِ نعمت میں کھپانے کی ’’ریاکاری در ریاکاری ‘‘ کا الزام مزید برآں ۔مَدَنی التِجا ہے کہ زَبان پر قُفلِ مدینہ لگانے کی کوشش کیجئے کہ زَبان کی بظاہِر معمولی نظر آنے والی لغزِش بھی جہنَّم میں جھونک سکتی ہے!
مشہور مُحدِّث حضرتِ سیِّدُنا سُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکہیں مَدعُو تھے میزبان نے اپنے خادِم سے کہا: اُن برتنوں میں کھانا کھِلاؤ جو میں دوسری بار کے حج میں لایا ہوں ، سیِّدُنا سُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے سُن کر فرمایا: مسکین! تو نے ایک جُملے میں دو حج ضائِع کردیئے! ( احسن الوعاء لآداب الدعاء، ص ۱۵۷)
عطا کردے اِخلاص کی مجھ کو نعمت
نہ نزدیک آئے ریا یاالٰہی
(وسائلِ بخشش ص۷۷)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بے ضَرورت اپنے حج وعمرہ کی تعداد، تِلاوت کردہ قرآنِ پاک اور دُرودِپاک اور دیگر اَوْراد پڑھنے کی گنتی بتانے والوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ ( اِخلاص کے مُتلاشی دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃ المدینہ کا جاری کردہ بیان کا آڈیو کیسیٹ’ ’نیکیاں چھپاؤ ‘‘ حاصِل کرکے سنئے) بِلاحاجت اپنے آپ کو حاجی، قاری ، حافِظ کہنے لکھنے والے بھی غور کریں کہ وہ حج یا فنِّ قِرأت یا حِفْظِ قراٰنِ پاک سے مُشرَّف ہونے کا بَہ بانگِ دُہُل اعلان کرکے کیا لینا چاہ رہے ہیں ؟ ہاں ، لوگ اپنی مرضی سے اَیسوں کو حاجی صاحِب ، قاری صاحِب یا حافِظ صاحِب کہیں تو اس میں کوئی مضایَقہ نہیں ۔البتّہ بُزُرگوں کے حج کی تعداد کا مُعامَلہ بھی اسی طرح ہے کہ یا تو ان کے خُدّام نے ان کو رِوایت کیا ہو گایا تحدیثِ نعمت کے لئے بزبانِ خود ارشاد فرمایا ہو گا۔سراپا اِخلاص بندوں کا مَنشاء ہر گز نیک نامی یا اپنی پارسائی کا سکّہ جمانا نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اگر کوئی حاجی اپنے حج وغیرہ کی تعداد بتائے بھی تو ہمیں اسے ریاکار کہنے کی اجازت نہیں کیوں کہ دلوں کا حال ربّ ذوالجلال جانتا ہے، ہم پر لازِم ہے کہ حسنِ ظن سے کام لیں ۔
(۷۷) ایک بزُرگ کا شیطان سے مکالمہ