عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

    مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں   :   ظاہر یہ ہے کہ یہ بِشارت اورہِدایت سارے مسلمانوں   کو ہے نہ کہ صِرْف مُہاجِرین کو یعنی جس مسلمان کی نیَّت مدینۂ پاک میں   مرنے کی ہو وہ کوشِش بھی وہاں   ہی مرنے کی کرے کہ خدا (عَزَّوَجَلَّ)  نصیب کرے تو وہاں   ہی قِیام کرے خُصُوصاً بڑھاپے میں   اور بِلاضَرورت مدینۂ پاک سے باہَر نہ جائے کہ موت ودفْن وہاں   کاہی نصیب ہو ، حضرتِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُدعا کرتے تھے کہ ’’مولا!  مجھے اپنے محبوب کے شہر میں   شہادت کی موت دے۔ ‘‘ آپ کی دعا ایسی قَبول ہوئی کہ سُبْحٰنَ اللہِ!  فجر کی نماز،  مسجد نبوی ،  مِحرابُ النبی،  مُصلّٰیِ نبی اور وہاں   شہادت ۔ میں   نے بعض لوگوں   کو دیکھا کہ تیس چالیس سال سے مدینۂ مُنَوَّرہ میں   ہیں   ،  حُدودِ مدینہ بلکہ شہرِ مدینہ سے بھی باہَر نہیں   جاتے اِسی خطرے سے کہ موت باہَر نہ آجائے،  حضرتِ امام مالِک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا بھی یہ ہی دستور رہا۔ (مراٰۃ المناجیح ج۴ص۲۲۲)

 (۳۸) مدینے میں   وفات ،   بوقتِ رخصت نیکی کی دعوت

    سیِّدُنا امامِ مالِک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الخَالِق کی وفا ت179ھ کے ماہِ صَفَرُالمُظَفَّر یا ربیعُ الاْوَّل شریف کی10یا 11 یا14تاریخ کو مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں   ہوئی اور جنَّتُ البقیع میں   دفْن ہوئے۔بوقتِ رِحْلَت آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نیکی کی دعوت دی۔سیِّدُنایحییٰ بن یحییٰ مَصْمُوْدِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں   :   سیِّدُنا امام مالِک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الخَالِق بیان کرتے ہیں   کہ سیِّدُنارَبِیْعہ نے فرمایا:   ’’میرے نزدیک کسی شخص کو نَماز کے مسائل بتانا روئے زمین کی تمام دولت صَدَقہ کرنے سے بہتر ہے اور کسی شخص کی دینی اُلجھن دُور کر دینا سو حج کرنے سے افضل ہے ۔ ‘‘ نیزسیِّدُنا ابنِ شَہاب زُہری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے حوالے سے بتایاکہ انہوں   نے فرمایا:   ’’میرے نزدیک کسی شخص کو دینی مشورہ دینا سو غَزوات میں   جِہاد کرنے سے بہتر ہے۔  ‘‘ سیِّدُنایحییٰ بن یحییٰ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کہتے ہیں   :  اس گفتگو کے بعد سیِّدُنا امامِ مالِک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الخَالِق نے کوئی بات نہیں   کی اور اپنی جان جانِ آفریں   کے سِپُرد کر دی ۔  (بُستانُ المحدثین ص۳۸، ۳۹)  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

طیبہ میں   مرکے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں   بند

سیدھی سڑک یہ شہرِ شَفاعت نگر کی ہے

 (حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۳۹) محبوب کو منانے کے نرالے انداز

 کسی نے محمود غزنوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کو حاضِریِ مدینۂ منّورہ  زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے دَوران مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں   فقیرانہ لباس پہنے ،  کندھے پرمَشکیزہ اُٹھائے زائرینِ حرم کوپانی پِلاتے دیکھ کر کہا:   کیا آپ غزنی کے شَہَنْشاہ نہیں   ؟  یہ کیا حال بنا رکھا ہے!  جواب دیا:   میں   شَہَنْشاہ ہوں   مگر غزنی میں   ،  اِس دربار میں   توشَہَنْشاہ بھی فقیروگدا ہوتے ہیں   ۔ پوچھنے والے کویہ دیوانگی بھرا جواب بَہُت ہی پیارا لگا۔ کچھ دیر بعد اُس نے دیکھا کہ مِصْر کاشَہَنْشاہ شاہی کَرّوفَر اور رُعب داب کے ساتھ چلا آ رہا ہے،  اُس شخص نے بڑھ کر کہا:   آپ نے اتنی بڑی جَسارَت کی!  مدینۂ منّورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی حاضِری اور یہ شاہی دبدبہ!  جو جواب مِصْری شَہَنْشاہ نے دیا وہ بھی سنہری حُروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ شاہِ مِصْر بولا:   اے سُوال کرنے والے!  یہ بتاؤ یہ

Index