صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۲۴) قراٰن کریم کی تعظیم کرنے والے بندر کی حکایت
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ561 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘ 477تا 478 پر میرے آقااعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت، مجدِّدِ دین وملّت ، مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کا ارشاد ہے : ایک مرتبہ ننّھے میاں (یعنی سرکار اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے سب سے چھوٹے بھائی علّا مہ محمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن) اپنی چَھت پر قرآنِ عظیم پڑھ رہے تھے، سامنے دیوار پر ایک بندر بیٹھا تھا، یہ کسی کام کو اٹھ کر گئے ، بندر دوڑتا ہوا سامنے دیوار پرگزرا اور اُس پار جانا چاہتا تھا جیسے ہی قرآنِ عظیم کے مُحاذات پر ( یعنی سامنے ) آیا، قرآنِ عظیم کو سجدہ کیا اور اپنی راہ چلا گیا ۔
چاند شَق ہو پیڑ بولیں ، جانور سجدہ کریں
بارَکَ اللہ مَرجَعِ عالَم یِہی سرکار ہے
(حدائق بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۲۵) بارگاہِ رسالت میں اِستِغاثہ
ایک پاکستانی حاجی صاحِب مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں حاضِر ہوئے جس مکان میں مُقیم ہوئے وہاں ایک بلّی رَہتی تھی جو روزانہ اُن کے قریب آتی اور وہ اُس سے پیار کرتے، حاجی صاحِب کے مَن میں مدینے کی بلّی خوب سما گئی تھی اور انہوں نے اُسے پاکستان لے جانے کی نیّت کر لی تھی۔بَتَمام حفاظت لے جانے کیلئے انہوں نے ایک پنجرے کی بھی ترکیب بنا لی تھی، جب ہجرِ مدینہ کی جاں سوز گھڑیاں قریب آئیں ، اورمدینے کی آخِری رات آ گئی تو حاجی صاحِب نے بارگاہِ رسالت میں الوَداعی سلام پیش کیا اور گھر آ کر لیٹ گئے ۔ خواب میں جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے کرم فرمایا، لبہائے مبارکہ کو جُنبِش ہوئی، رَحْمت کے پھول جھڑنے لگے، الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے : ’’ آپ خیریت سے رخصت ہوں گے مگر میری بلّی کو ساتھ نہ لے جانا یہ کئی دن سے روزانہ میرے دربار میں حاضِر ہو کر عَرْض کرتی ہے: مجھے بچا لیجئے! مدینہ چھوٹ رہا ہے۔ ‘‘ (مدینۃ الرسول ص ۴۱۹ ملخصاً)
سببِ وُفُورِ رَحمت مِری بے زَبانیاں ہیں
نہ فُغاں کے ڈھنگ جانوں نہ مجھے پکار آئے
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۲۶) ہِرنی کی پکاربحضورِشَہَنْشاہِ ابرار
اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ سیِّدَتُنا اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے کہ سرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگار، شَفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم صَحراء میں تھے۔ اچانک کسی نے پکارا: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مُتَوجِّہ ہو کر دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا۔ پھر دوسری طرف مُتَوجِّہ ہو کر دیکھا تو بندھی ہوئی ایک ہرنی نظر آئی اُس نے عَرْض کی : اُُدْنُ مِنِّیْ یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! یعنی