(۴۵) آقا کوپکارنے سے کمزوری دور ہوجاتی
حضرتِ سیِّدُنا ابوعبداللہ محمد بن سالِمسِجِلْمَاسِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : میں محترم نبی، مکّی مَدَنی ، مَحْبوبِ ربِّ غنی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے روضۂ انور کی زیارت کی نیّت سے پیدل چلنے والے قافِلۂ مدینہ کا مسافِر بن گیا۔دَورانِ سفرجب کبھی کمزوری محسوس ہوتی تو عرض کرتا: اَنَا فِیْ ضِیَافَتِکَ یَارَسُوْلَ اللہیعنی یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں آپ کی ضِیافت (یعنی مہمانی ) میں ہوں تو وہ ناتُوانی (یعنی کمزوری) فوراً زائل ہوجاتی۔ (شواہدُ الحق ص۲۳۱) اللہِ عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
تھکا ماندہ ہے وہ جو پاؤں اپنے توڑ کر بیٹھا
وُہی پہنچا ہوا ٹھہرا جو پہنچا کُوئے جاناں میں
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۴۶) گنبدِخضرا دیکھ کر دم نکل گیا!
مو لانا حافِظ بصیر پُوری اپنے سفر نامۂ حج میں لکھتے ہیں : 1972ء میں مجھیمدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں رَمَضانُ المبارَک کا مہینا نصیب ہوا۔ غالِباً رَمَضانُ المبارَککا دوسرا جُمُعہ تھا، ایک عاشقِ رسول اپنے ساتھیوں کو مجبور کر کے مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے قبل از وَقْت ہی مدینۂ طیِّبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً لے آیا۔اور آتے ہی سامان سے بے پرواہ ہو کر آقائے دوجہاں ، سلطانِ کون و مکاں صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے دربارِ اقدس میں حاضِر ہوگیا۔ سلام عرض کرنے کے بعد دونَفْل ادا کئے اور بابِ جبریل سے باہَر نکلا، پلٹ کر گنبدِ خضرا پر نظر ڈالی اور غش کھا کر گر پڑا، منہ سے خون بہنے لگا اور تڑپے بِغیرٹھنڈا ہو گیا۔ (انوارِ قطبِ مدینہ ص۶۲) اللہِ عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحْمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
کاش! گنبدِ خَضرا پر نگاہ پڑتے ہی
کھا کے غش میں گرجاتا پھر تڑپ کے مرجاتا
(وسائلِ بخشش ص۴۱۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنامحمد بن مُنْکَدِر علیہ رَحمۃُ اللہالمُقتَدِر کے صاحِبزادے بیان کرتے ہیں کہ یَمَن کے ایک آدَمی نے میرے والِدصاحِب کے پاس 80 دینار رکھواتے ہوئے عرض کی: ’’ اگر ضَرورت پڑے تو انہیں خَرْچ کرلینا، جب واپَس آؤں تو مجھے ادا کردینا۔ ‘‘ اور وہ خود جِہاد کے لیے چلا گیا۔اُس کے جانے کے بعد مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں سخْت قَحْط اور خشک سالی نے غَلَبہکیا، والِد صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے وہ دِینار لوگوں میں تقسیم کردیئے۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ وہ شخص واپَس آگیا اور اُس نے اپنی رقم طلب کی۔ والِدمحترم نے کہا : ’’ کل تشریف لائیے۔اور خود اُس رات مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف میں ٹھہرے