غیلان بن سلمہ ثَقفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ہم ایک سفر میں محبوبِ ربِّ اکبر، مکّے مدینے کے تاجور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ تھے، ہم نے ایک عجیب بات دیکھی (اور وہ یہ کہ ) ہم ایک منزِل میں اُترے، وہاں ایک شخص نے حاضِر ہوکر عَرْض کی: یانبیَّ اللہ ! میرا ایک باغ ہے کہ میری اور میرے عِیال کی وُہی وجہِ مَعاش (یعنی گزر بسر کا ذَرِیعہ) ہے ا س میں میرے دو شُتر (یعنی دواُونٹ) آبکَشْ (کنویں سے پانی کھینچنے والے) تھے ، دونوں مَسْت ہوگئے نہ اپنے پاس آنے دیں نہ باغ میں قدم رکھنے دیں ، کسی کی طاقت نہیں کہ قریب جائے۔حُضُورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم مَع صَحابۂ کرام (عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان) اُٹھ کر اُس کے باغ کو گئے ۔ فرمایا: کھول دے، عَرْض کی ، یا نبیَّ اللہ! ان کا مُعامَلہ اس سے سخت تَر ہے، فرمایا: کھول، دروازے کوجُنبِش (یعنی حَرَکت) ہونی تھی کہ دونوں (اُونٹ) شور کرتے ہوا کی طرح جَھپٹے دروازہ کُھلا اوراُنہوں نے جب حُضُور ِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو دیکھا فوراً سجدے میں گر پڑے! حُضُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اُن کے سر پکڑ کر مالِک کے سِپُرد کر دیئے اور فرمایا: ’’ اِن سے کام لے اور چارا بخوبی دے۔ ‘‘ حاضِرین نے عَرْض کی: یا نبیَّ اللہ! چَوپائے حُضُور کو سجدہ کرتے ہیں توحُضُور کے سبب ہم پر اللہ کی نعمت تو بہتر ہے ، اللہ نے گمراہی سے ہم کو راہ دکھائی اورحُضُور کے ہاتھوں پر ہمیں دنیا و آخِرت کے مُہلِکوں (یعنی ہلاک کرنے والی چیزوں ) سے نَجات دی کیا حُضُورہم کو اجازت نہ دیں گے کہ ہم حُضور کو’’ سَجدہ ‘‘ کریں ؟ نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: سَجدہ میرے لئے نہیں ، وہ تو اُسی زندہ کے لئے ہے جو کبھی نہ مرے گا، امّت میں کسی کو سجدے کا حکم دیتا توعورت کو سجدۂ شوہر کا۔ ( دلائل النبوۃ ص ۲۲۸)
مَلک و جِنّ و بَشَر پڑھتے ہیں کلمہ اُن کا جانور سنگ و شَجَرکرتے ہیں چرچا اُن کا (قبالۂ بخشش)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۲۹) غمِ مصطَفٰے میں جان دینے والے دو بے زَبان
سلطانِ دو جہان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے وِصالِ ظاہِری کے سبب اِنْس وجان کے ساتھ ساتھ بے زَبان حیوان بھی صدمے سے دو چار ہوئے (۱) ایک دراز گوش (یعنی گدھا) جس پر جنابِ محبوبِ باری صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اکثر سُواری فرمایا کرتے تھے، فَرطِ غم سے بے تاب ہو کر اُس نے ایک کُنوئیں میں چھلانگ لگا کر جان دے دی (۲) سَروَرِ انبیاء صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خاص اُونٹنی بھی دیدارِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے بِغیر بے قرار رہنے لگی، کھانا پینا چھوڑ دیا اور اِس طرح اُس نے بھی بھوک پیاس سے جان دے دی۔ (مدارِجُ النّبو ت حصّہ۲ص۴۴۴)
اُن کے در پر موت آ جائے تو جی جاؤں حسنؔ
ان کے در سے دُور رہ کر زندگی اچّھی نہیں
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۳۰) حرم شریف کے کبوتروں کی آستانۂ محبوب سے مَحبَّت
قطبِ مدینہ سیِّدی و مُرشِدی حضرتِ علّامہ مولانا ضِیاء الدّین احمد مَدَنی علیہ رَحمَۃُ اللہ الغنی فرماتے ہیں : ایک مرتبہ انتِظامیہ نے