عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

چاہئے کہ ہرگز شیطان کے دامِ تَزوِیر ( تَزْ۔وِیْر، یعنی دھوکے)  میں   نہ آئے ،  ہر صورت میں   اُس کے چُنگل سے خود کو بچائے اور خوب اَجرو ثواب کمائے۔

آخِری عمر ہے کیا رونقِ دنیا دیکھوں   

اب فَقَط ایک ہی دُھن ہے کہ مدینہ دیکھوں   

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۸۲) بکثرت رونے والا حاجی

        حضرتِ سیِّدُ نا مُخَوَّل رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہفرماتے ہیں   :   حضرت سیِّدنا بُہَیْم عِجلی رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰیالوالینے مجھ سے فرمایا :   میرا حج کا اراد ہ ہے کسی کو میرا  رفیقِ سفر بنادیجئے۔ چُنانچِہ میں   نے اپنے ایک پڑوسی کو اُن کے ساتھ سفرِ مدینہ پر آمادہ کرلیا۔ دوسرے دن میرا پڑوسی میرے پاس آیا اور کہنے لگا:  میں   حضرتِ سیِّدُنا بُہَیْم کے ساتھ نہیں   جاسکتا۔ میں   نے حیرت سے کہا :  خدا کی قسم !  میں   نے کوفہ بھر میں   ان جیسا بااَخلاق آدَمی نہیں   دیکھا آخِر کیا وجہ ہے کہ تم ان کی رفاقت سے خود کو محروم کررہے ہو؟ وہ بولا:  میں   نے سنا ہے کہ وہ اکثر روتے رہتے ہیں   ،  اِس لیے ان کے ساتھ میرا سفر خوشگوار نہیں   رہے گا۔ میں   نے اُس کو سمجھایا کہ یہ بَہُت اچھّے بُزُرگ ہیں   ،  ان کی صحبت اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّتمہارے لیے نہایت مَنْفَعت بَخْش ہوگی۔ وہ مان گیا۔ جب سفر کے لیے اُونٹوں   پر سامان لادا جانے لگا تو حضرتِ سیِدُنابُہَیْم عِجلی رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰیالوالی ایک دیوار کے قریب بیٹھ کر رونے میں   مشغول ہوگئے ،  حتّٰی کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ کی داڑھی مبارَک اور سینہ اشکوں   سے تَر ہوگیا اور آنسو زمین پر ٹَپ ٹَپ گرنے لگے۔ میرے پڑوسی نے گھبرا کر مجھ سے کہا :   ابھی تو سفر کی شُروعات ہے اور ان کا یہ حال ہے خدا جانے آگے کیا عالَم ہوگا!  میں   نے انفِرادی کوشِش کرتے ہوئے کہا :   گھبرائیے نہیں   سفر کا مُعامَلہ ہے،  ہوسکتا ہے بال بچّوں   کی جُدائی میں   رو رہے ہوں   اور آگے چل کر قرار آجائے۔ حضرت سیِّدُنابُہَیْم عِجلی رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے یہ بات سُن لی اور فرمایا :   وَاللہ!  ایسی بات نہیں   ، اِس سفر کے سبب مجھے’’ سفرِ آخِرت ‘‘ یاد آگیا۔ یہ فرماتے ہی چیخیں   مار مار کر رونے لگے۔ پڑوسی نے پھر پریشانی کے عالَم میں   مجھ سے کہا :   میں   ان کے ہمراہ کیسے رہ سکوں   گا!  ہاں   ان کا سفر حضرت سیِدُنا داوٗد طائی اور سیِّدُنا سلام اَبُو اْلاَحْوَص رَحِمَہُمَا اللہ تعالٰی کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ یہ ہر دو حضْرات بھی بَہُت روتے ہیں   ،  اُن کے ساتھ ان کی ترکیب خوب رہے گی اور ملکر خوب رویا کریں   گے۔ میں   نے پھر پڑوسی کی ہمّت بندھائی،  آخرِ کار وہ اُن کے ساتھ سفرِ مدینہ پر روانہ ہوگیا۔ حضرتِ سیِّدُنا مُخَوَّل رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ  فرماتے ہیں   :   جب حج سے ان کی واپَسی ہوئی تو میں   اپنے پڑوسی حاجی کے پاس گیا،  اُس نے بتایا :   اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کو جزائے خیر دے،  میں   نے ان جیسا آدَمی کہیں   نہیں   دیکھا،  حالانکہ میں   مالدار تھا پھر بھی غریب ہونے کے باوُجُود وہ مجھ پر خوب خَرْچ کرتے تھے،  بوڑھے ہونے کے باوُجُود روزے رکھتے ،  مُجھ بے روزہ جوان کے لیے کھانا بناتے اور میری بے حد خدمت کیا کرتے تھے۔ میں   نے کہا :   آپ تو ان کے رونے کے سبب پریشان ہوتے تھے اب کیا ذِہْن ہے؟  کہا :   پہلے پَہَل میں   بلکہ دیگر قافِلے والے بھی ان کے رونے کی کثرت سے گھبرا جاتے تھے مگر آہِستہ آہِستہ ان کی صُحبت کی بَرَکت سے ہم پر بھی رقّت طاری ہونے لگی اور ان کے ساتھ ہم سب بھی مل کر روتے تھے۔ حضرتِ سیُدنا مُخَوَّل رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ کہتے ہیں   :   اِس کے بعد میں   حضرت سیِّدُنابُہَیْم عِجلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیکی خدمت میں   حاضِر ہوا اوراپنے پڑوسی حاجی کے بارے میں   دریافْتْ

Index