سرکار کِھلاتے ہیں سرکار پِلاتے ہیں
سلطان وگدا سب کو سرکار نبھاتے ہیں
(وسائلِ بخشش ص ۳۳۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۳) سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے کھانا کھلایا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّ! ہمارے میٹھے میٹھے آقا، مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اپنے غلاموں پر نظرکرم فرماتے، مصیبت میں پھنس جانے کی صورت میں اِمداد کو آتے اور بھوکوں کو کھانا کِھلاتے ہیں ، اِس ضِمْن میں ایک اور حِکایت مُلا حَظہ ہو، چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا امام یوسُف بن اسمٰعیل نَبہانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نَقْل کرتے ہیں : حضرتِ سیِّدُناشیخ ابو العبّاس احمد بن نفیس تُونِسی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : میں ایک بار مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں سخْت بھوک کے عالَم میں سرکارِ عالی وقار ، مکّے مدینے کے تاجدار، بِاِذنِپَرْوْرَدگار غیبوں پر خبردار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے مَزارِپُر انوار پر حاضِر ہو کر عرض گزار ہوا، یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں بھوکا ہوں ۔ یکایک آنکھ لگ گئی، دَریں اَثنا کسی نے جگا دیااور مجھے ساتھ چلنے کی دعوت دی، چُنانچِہ میں ان کے ساتھ ان کے گھر آیا، میزبان نے کَھجوریں ، گھی اورگندُم کی روٹی پیش کر کے کہا: پیٹ بھرکر کھا لیجئے کیوں کہ مجھے میرے جَدِّ امجد، مکّی مَدَنی محمَّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آپ کی مَیزبانی کا حُکم دیا ہے۔ آیَندہ بھی جب کبھی بھوک محسوس ہو ہمارے پاس تشریف لایا کریں ۔ (حُجَّۃُ اللہ عَلَی الْعٰلَمِین ص۵۷۳)
پیتے ہیں ترے در کا کھاتے ہیں ترے در کا
پانی ہے تِرا پانی دانہ ہے تِرا دانہ
(سامانِ بخشِش)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۴) سرکار نے دِرھَم عطا فرمائے
حضرتِ سیِّدُنا احمد بِن محمد صُوفی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ میں تین مہینوں تک جنگلوں میں پھرتا رہا یہاں تک کہ میری سب کھال گَل گئی۔ بالآخِر میں مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً حاضِر ہُوا اور میں نے غمزدوں کے دِلوں کے چَین، سرورِ کونَین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور شَیخَین کَرِیمَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکی بارگاہوں میں سلام عرض کیا اور سوگیا۔خواب میں جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت سے شرفیاب ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرما رہے تھے: ’’احمدتُو آگیا، دیکھ تیرا کیا حال ہوگیا ہے! ‘‘ میں نے عرض کی : اَنَا جَائِعٌ وَاَنَا ضَیْفُکَ یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! یعنی یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں بھوکا ہوں اور آپ کا مہمان ہوں۔ سرکارِ دو جہاں ، مالکِ کون ومکاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاتھ کھول! ‘‘ جب میں نے اپنا ہاتھ کھولا تو اُس میں چند دِرہم تھے، جب آنکھ کھلی تو وہ دِرہم میرے ہاتھ میں موجود تھے، میں نے بازار سے جاکرروٹی اور فالودہ خرید کر کھایا۔ (جَذبُ القُلوب ص۲۰۷، وفاء الوفاء ج ۲ ص ۱۳۸۱) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم