عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

حُجْرۂ مقدَّسہ دوحصّوں   میں   تقسیم تھا

        امُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا حُجرۂ مُبارَکہ دو حِصّوں   میں   مُنْقَسِم  (یعنی تقسیم) تھا ، ایک وہ حصّہ جہاں   قُبُورِ مبارَکہ تھیں   اور دوسرا وہ جَہاں   آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی رِہائش تھی ، دونوں   حِصّوں   کے درمیان ایک دیوار تھی ، آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں   کہ میں   اپنے گھرکے اُس حصّے میں   جس میں   رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور میرے والدِماجِد (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)  آرام فرما تھے،  اِس حال میں   داخِل ہوا کرتی تھی کہ پردے کا کچھ خاص اہتِمام نہ ہوتا تھا،  میں   کہتی تھی کہ ایک میرے شوہَرِنامدار ہیں   اور دوسرے میرے والِدِبزرگوار ۔جب ان کے ساتھ امیرُالْمُؤمِنِین حضرت عمر فاروقِ اعظم       رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دفْن ہوئے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم ! حضرتِ عمر فاروقِ اعظم       رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے حیا کی بِنا پر اِس طرح داخِل ہوتی تھی کہ میں   نے اپنے جسم کو خوب اچّھی طرح کپڑوں   میں   لپیٹا ہواہوتا تھا ۔ (مسند امام احمد ج۱۰ص۱۲ حدیث۲۵۷۱۸) معلوم ہواکہ امُّ المؤمنین حضرت سیِّدَہ عائشہ صِدّیقہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا  کو اس اَمْر میں   کوئی شک نہ تھا کہ دنیا سے پردہ فرما لینے کے باوُجُود بھی    صاحِبِ مِعراج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور پیارے پِدَر سیِّدُنا صِدّیقِ اکبر    رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اپنے اپنے روضۂ انور کے اندر رہتے ہوئے بھی مجھے دیکھ رہے ہیں   اوریِہی عقیدہ  امیرُالْمُؤمِنِین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں   تھا، جبھی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے روضۂ اطہر میں   دَفْن ہونے کے بعدآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضِری دیتے وَقت پردے کا خُصُوصی اہتمام فرمایاکرتی تھیں   ۔ حالانکہ قبروں   کے پاس اس طرح پردے کا حکم نہیں   ہے ۔

میری مَدَنی بیٹیاں   یا رب! سبھی پردہ کریں   

سنَّتوں   کی خوب خدمت بہرِ صِدِّیقہ کریں   

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

شَیخَینِ کریمَین کے بعد کوئی یہاں   دفْن نہیں   ہوا

          شیخینِ کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا  کے بعد حُجْرۂ مبارَکہ میں   کسی اور کی تدفین کی ترکیب نہیں   بنی ،  ذُوالنُّورَین، جامِع القراٰن حضرتِ سیِّدُنا عثمان ابنِ عفّان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی شہادت اگرچِہ مدینۃُ المُنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں   ہوئی لیکن ایک فسادی گروہ نے  حُجرہ ٔ پاک کے اندر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی تدفین نہیں   ہونے دی چُنانچِہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جنَّتُ ا لْبقیع میں   دَفْن کیا گیا ۔ جبکہ مولیٰ مشکِل کُشاحضرت علیُّ المرتَضیٰ شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی شہادت مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے بَہُت دُورکوفے میں   ہوئی لہٰذا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تدفین بھی حُجْرۂ مطہّرہ میں   نہ ہوئی۔جب نَواسۂ رسول ،  جگرگوشۂ  بَتولحضرتِ سیِّدُنا امام حَسَن مُجتَبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو زَہر دے کر شہید کیا گیا اورآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تدفین حُجْرۂ مقدّسہ میں   کرنے کی کوشش ہوئی تواُس وَقت مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا گورنرمَروان جوکہ اہلِ بیت کا مخالِف تھا ، مُسلَّح ہو کرآڑے آیا چنانچِہ خونِیں   تصادُم سے بچنے کے لئےحضرتِسیِّدُناامام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تدفین جنَّتُ الْبقیع میں   کر دی گئی ۔

وہ    حسن    مُجتبیٰ    سیِّدُ   الْاَسخِیا

راکِبِ دَوشِ عزّت پہ لاکھوں   سلام

 

Index