(۱۰۲) پیر مہر علی شاہ کو زیارتِ مکین گنبدِخضرا بمقام وادیِ حَمرا
تاجدارِ گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : مدینۂ عالیہ کے سفر میں بمقام وادیِ حَمرا ڈاکوؤں کے حملے کی پریشانی کی وجہ سے مجبوراً عشاء کی سنّتیں مجھ سے رَہ گئیں ، مولوی محمد غازی ، مدرَسۂ صَولَتِیہ میں شَغْلِ تعلیم و تدریس چھوڑ کر حُسنِ ظن کی بِناء پربَغَرَضِ خدمت اِس مُقدس سفر میں میرے شریک ہوئے تھے۔ اِن رُفَقاء کی مَعِیَّت میں مَیں قافِلے کے ایک طرف سوگیا، کیا دیکھتا ہوں کہ سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سیاہ عربی جُبّہ زیبِ تن فرمائے تشریف لا کر اپنے جمالِ باکمال سے مجھے نئی زندَگی عطا فرماتے ہیں ، ایسا معلوم ہوا کہ میں ایک مسجِد میں بَحالَتِ مُراقبہ دوزانو بیٹھا ہوں ، آنحضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قریب تشریف لا کر ارشاد فرمایا کہ آلِ رسول کو سُنّت ترک نہیں کرنا چاہیے۔ مَیں نے اِس حالت میں آنجناب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دوپِنڈلیوں کو جو ریشم سے بھی زیادہ لطیف تھیں اپنے دونوں ہاتھوں سے مضبوط پکڑ کر نالہ وفُغاں کرتے (یعنی روتے بِلکتے) ہوئے، اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُولَ اللہکہنا شُروع کیا اور عالَمِ مدہوشی میں روتے ہوئے عرض کی کہ حُضور کون ہیں ؟ جواب میں وُہی ارشاد ہوا کہ آلِ رسول کو سُنّت ترک نہیں کرنا چاہیے۔ تین بار یِہی سُوال و جواب ہوتے رہے۔ تیسری بار میرے دل میں ڈالا گیا کہ جب آپ نِدائے یَارَسُولَ اللہ سے مَنْع نہیں فرمارہے تو ظاہر ہے کہ خود آنحضرت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ، اگر کوئی اور بُزُرگ ہوتے تو اس کلمے سے مَنْع فرماتے، اُس حسن و جمالِ باکمال کے متعلّق کیا کہوں ! اُس ذَوق و مستی و فیضانِ کرم کے بیان سے زَبان عاجز ہے اور تحریر لنگ (لاچار) البتَّہ بادہ خَوارانِ عشق و مَحَبَّت (یعنی شرابِ محبت پینے والوں ) کے حَلْق میں ان اَبیات (یعنی اشعار) سے ایک جُرْعہ (یعنی گھونٹ) اور اُس نافَۂ مُشک (مُشک کی تھیلی) سے ایک نَفحہ (خوشگوارمہک ) ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ (مہرِ منیر ص ۱۳۱ تا ۱۳۲)
حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مذکورہ واقِعے کا اپنے مشہور کلام میں بھی اشارہ فرمایا ہے۔ اُس کے چند اشعار مُلا حظہ ہوں : ؎
اَج سِک مِتراں دی وَدھیری اے ، کیوں دِلڑی اُداس گھنیری اے! لُوں لُوں وِچ شوق چنگیری اے ، اَج نَیناں لائیاں کیوں جَھڑیاں
اَلطَّیْفُ سَریٰ مِنْ طَلْعَتِہٖ، وَالشَّذْوُ بَدیٰ مِنْ وَّفْرَتِہٖ فَسَکَرْتُ ھُنَا مِنْ نَظْرَتِہٖ، نَیناں دیاں فوجاں سرچڑھیاں
مُکھ چند بدر شَعشانی اے ، مَتھے چمکے لاٹ نورانی اے کالی زُلف تے اَکھ مستانی اے ، مخموراکھِیں ہِن مَدْ بھریاں
دو اَبرو قوس مثال دِسَن ، جَیں توں نوکِ مِژہ دے تِیر چُھٹن لباں سُرخ آکھاں کہ لعلِ یمن، چِٹّے دند موتی دِیاں ہِن لڑیاں
اِس صورت نُوں میں جان آکھاں ، جانان کہ جانِ جہان آکھاں سچ آکھاں تے ربّ دی شان آکھاں ، جِس شان تو ں شاناں سب بنیاں
لاہو مُکھ توں مُخطَّط بُردِیَمَن، مَن بھانوری جھلک دِکھاؤ سجن اوہامِٹھیاں گالِیں الاؤ مِٹھن ، جو حَمرا وادی سن کریاں
سُبْحٰنَ اللہ! مَا اَجْمَلَکََ ، مَااَحْسَنَکَ مَا اَکْمَلَک، کِتّھے مِہر علی کِتّھے تیری ثنا ، مشتاق ([1]) اکھِیں کِتّھے جا اَڑیاں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
[1] حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بطورِ عاجزی یہاں لفظ’’ گستاخ‘‘ لکھا ہے(مہر منیر ص ۵۰۰) مگر حضرت کا ادب کرتے ہوئے اکثر ثنا خوان جس طرح پڑھتے ہیں اُسی طرح میں نے لکھ دیا ہے۔ (مہر منیر ص )