محبوب کے شہر سے مَحَبَّت سچّے عاشق کی علامت ہے لہٰذا عظیم عاشقِ رسول حضرتِ محدِّثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الاَحَد مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًسے بَہُتمَحَبَّت کرتے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مَحفِل میں اکثر دِیارِ محبوب کا تذکِرہ ہوتا رہتا تھا ۔ اگر کوئی زائرِ مدینہ آپ کی خدمت میں حاضِر ہوتا تو اُس سے مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے حالات پوچھتے، مدینۂ پاک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے رِہائشی اہلِ سنّت و جماعت کی خیریت دریافت فرماتے اور اگر کوئی تَبَرُّک پیش کرتا تو بڑی خوشی سے قَبول فرماتے ۔ ایک مرتبہ ایک حاجی صاحِب نے مدینۂ طیِّبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کیکھجوریں پیش کیں ، اُس وَقْت دروۂ حدیث جاری تھا، خُرمائے مدینہ (یعنی مدینے کی کھجوریں ) حاضِرین طَلَبہ میں تقسیم فرمائیں اور ایک کَھجور اپنی داڑھوں میں دبا کر فرمانے لگے: ’’خُرمائے مدینہ (یعنی کھجورِ مدینہ) اپنے منہ میں رکھ لی ہے ، جب تک گُھل کر اندر جاتی رہے گی ، ایمان تازہ ہوتا رہے گا۔ (ماخوذاًحیات محدِث اعظمِ پاکستان ص ۱۵۵ )
کھجورِ مدینہ سے کیوں ہو نہ اُلفت
کہ ہے اس کو آقا کے کُوچے سے نسبت
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۰۶) مدینے میں اپنے بال و ناخن دفن فرمائے
حضرتِ محدِثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الاَحَد فرماتے ہیں : فقیر نے مدینۃُ الرَّسول عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے واپَسی کے وَقْت اپنے کچھ بال اور ناخُن مدینہ شریف زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں دفن کر دیئے اور رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جناب میں عرض کی: ’’ یَارَسُولَ اللہ! مدینۂ پاک میں مرنا تو میرے اختیار میں نہیں البتّہ اپنے جسم کے چند اَجزاء دَفْن کر کے جا رہا ہوں کہ ہم غریبوں کے لئے یِہی غنیمت ہے۔ ‘‘ (ایضاً)
جان و دل چھوڑ کر یہ کہہ کے چلا ہوں اعظمؔ
آ رہا ہوں مِرا سامان مدینے میں رہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۰۷) اب کچھ بھی نہیں ہم کو مدینے کے سوا یاد
مولاناقاضی مَظہرُ الحق جَہلَمی براستہ کوئٹہ ، زاہِدان ، بغداد شریف ، مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً اور دوسرے مقاماتِ مقدَّسہ کی زیارت سے مُشرَّف ہو کر حضرتِ محدِثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الاَحَد کی خدمت میں حاضِر ہوئے، جب قاضی صاحِب کا تعارُف کرایا گیا (اور عَرْض کی گئی کہ یہ مدینے کی حاضِری سے مُشرَّف ہو کر آئے ہیں ) تو قاضی صاحِب کا ہاتھ تھام لیا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے، اگرچِہ طبیعت کافی نادُرُست تھی، بیماری میں اِضافہ ہو چکاتھا ، لیکن اس کے باوُجُود آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور قاضی صاحِب سے مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی باتیں پوچھنے لگے، مدینۂ پاک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں رہنے والے اَحْبابِ اہل سنّت و جماعت کی خیریت دریافت فرمائی، مدینہ شریف کی گلیوں کی یاد آئی، گُنبدِ خضریٰ کا نورانی منظر نگاہوں میں پھرنے لگا ، مقدّس جالیوں کے جَلوے دل میں اُترنے لگے ، روضۂ اقدس کا وقار دلوں پر چھا نے لگا، تصوُّرات دیار ِ حبیبِ خدا کی نورانی وادیوں میں گم ہونے لگے اور تمام محفل کی کیفیت یہ ہو گئی کہ