عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

بھی گناہوں   کے خوف سے ہجرت کر کے طائف شریف تشریف لے گئے۔اعلیٰ حضرت ،  مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہمُخَرَّجہ  جلد10 صَفْحَہ693 پرنَقْل کرتے ہیں   :  فَقِیہ کی تعریف امام حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یوں   کی ہے:  دنیا سے اِعْراض کرنے (یعنی بچنے)  والا،  آخِرت کا شوق رکھنے والا،  اور اپنے عُیُوب سے آگاہ شخص فَقِیہ کہلاتا ہے۔ ایسے لوگ بِلاشُبہ مُجاوَرَتِ مکّہ (یعنی مکّے میں   مُستِقل رہائش)  کے اَہْل ہیں   اور اللہ کی قسم!  حضرتِ ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  ان اَہل لوگوں   میں   سے بھی بڑے ہیں   ،  لیکن اکابِر (یعنی دینی اعتبار سے بڑے لوگ )  ہمیشہ اپنے آپ کو چھوٹا اور عاجِز سمجھتے ہیں   ،  غور تو کیجئے!  کتنا فَرْق ہے اِن میں   اور اُن میں   !  کہ جوغَلَطی نہیں   کرتا وہ عذاب سے ڈرتا ہے اور جوگناہ سے محفوظ نہیں   وہ سلامَتی کا دعویٰ کرتا ہے۔  (فتاوی رضویہ مخرجہ ج۱۰ ص ۶۹۳)

مکے میں   زیادہ رہنے سے کعبے کی ہیبت میں   کمی آسکتی ہے

          مکۃُالمکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  میں   طویل قیام سے جہاں   گناہوں   کے سبب ہلاکت  کا خوف ہے وہاں   جو گناہوں   سے مُحتاط رہنے والے ہیں   اُن کیلئے بھی یہ امکان رہتا ہے کہ دل میں   کعبۂ مُشَرَّفہ کی ہیبت میں   کمی آجائے۔ میرے آقااعلیٰ حضرت،  امامِ اہلِسنّت،  مجدِّدِ دین وملّت، مولانا شاہ امام احمد رضاخان فتاوٰی رضویہمُخَرَّجہ  جلد10 صَفْحَہ 688پرنَقْل کرتے ہیں   :   امیرُالمومنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھئے وہ جب حج سے فارغ  ہوتے تو لوگوں   میں   دَورہ کرتے اور فرماتے:  ’’ اے اہل یمن!  یمن چلے جاؤ،  اے اہلِ عراق!  عراق چلے جاؤ،  اے اہل شام!  اپنے وطن شام لوٹ جاؤ تا کہ تمہارے ذِہنوں   میں   تمہارے ربّ کے گھر (کعبۃُ اللہ)  کی ہیبت خوب قائم رہے۔ ‘‘ (یہ نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں   ) میں   کہتا ہوں   :   یہ اُس دَور کی بات ہے جب صَحابہ یا تابِعین تھے جو نہایت مُؤَدَّب اور نہایت ہی احترام و اکرام کرنے والے تھے،  ہمارے اِس دَور کا کیا حال ہوگا!  اللہ تَعَالٰی  ہی اصلاحِ اَحوال کی توفیق دے۔  (فتاوی رضویہ مخرجہ ج۱۰ ص ۶۸۸)

بدن کہیں   بھی ہو مگر دل مکّے مدینے میں   رہے

          اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہمُخَرَّجہ  جلد10 صَفْحَہ 690 پرفرماتے ہیں   :   (صاحِبِ مَدْخَل نے حضرت سیِّدُنا امام ابو طالب مکّی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کی)  قُوْتُ الْقُلوب سے نَقْل کیا ہے:  بعض اَسلاف سے  (منقول ) ہے :  ’’بَہُت سے خُراسان (ایران)  میں   رِہائش پذیر لوگ اس بیتُ اللہکا طواف کرنے والے کے مقابلے میں   کعبہ شریف سے زیادہ قریب ہیں۔ ‘‘ بعض نے فرمایا:  ’’ بندہ اپنے شہر میں   ہوا ور اُس کا دل اللہ تَعَالٰیکے گھر  (یعنیکعبۃُ اللہ) سے متعلِّق ہو یہ اس سے بہتر ہے کہ بندہ بیتُ اللہ میں   ہو اور دل کسی اور شہر کے ساتھ وابَستہ ہو  ‘‘ ۔ میرے آقااعلیٰ حضرت،  امامِ اہلِسنّت،  مجدِّدِ دین وملّت ،  مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن  نے حَرَمین طیِبّین زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں   مُجاوَرَت  (یعنی مُستقِل قِیام) کے بارے میں   کئے گئے سُوال کے جواب میں   تفصیلی دلائل دینے کے بعد ارشاد فرمایا:   ’’بِالجُملہ ہمارے دَور میں   مُجاوَرَت (یعنی مُستقِل رِہائش)  کی قَطْعاً اجازت نہیں   ، عَقْلمَند اپنے لیے فَقَط اِحتیاط ہی کی راہ اپنا تا ہے اور ہر اُس راستے سے اِجتِناب کرتا  (یعنی بچتا)  ہے جس سے ہَلاکت میں   گرنے کاخَدْشہ ہو،  جس نے اپنے نَفْس کو سچّا سمجھا (کہ بس جی خیر ہے،  کچھ نہیں   ہوتا)  اُس نے جھوٹے کی تصدیق کی (کہ نَفس جو کہ ہے ہی جھوٹا اس کو سچّا سمجھ بیٹھا! )  اور خود

Index