کام میں اللہ عَزَّ وَجَلَّکے لئے کیا کروں اُسے گِراں (بوجھ ) نہ سمجھا کرو، میرانَفْس ترقّی پسند اور خوب سے خوب تَر کا مُشتاق (طلبگار) ہے ، جب بھی اِسے کوئی مرتبہ ملا اِس نے فوراً اِس سے بُلند تَر مرتبے کے حُصُول کی کوشِش شُروع کردی، دُنیاوی مَناصِب (یعنی عُہدوں ) میں سے بلند تَرمَنصَب (یعنی عُہدہ) خِلافت ہے جو میرے نَفْس کو حاصِل ہوچکا ہے ، اب یہ صِرْف اور صِرف جنّت کا مُشتاق ہے۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیزلابن عبدالحکم ص۵۳) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
آخِری عمر ہے کیا رونقِ دنیا دیکھوں
اب فَقَط ایک ہی دُھن ہے کہ مدینہ دیکھوں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حِکایت میں ان لوگوں کے لئے دَرْسِ عبرت ہے جو رشوت ، سُود، جُوئے، تجارت میں دھوکا اور جھوٹ جیسے ناجائز ذرائِع سے دولت اکٹّھی کرتے ہیں اور اسی میں سے حج کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بَہُت بڑی کامیابی حاصِل کر لی ہے ۔خبردار ! یہ کامیابی نہیں بلکہ ’’چوری اور سینہ زوری ‘‘ والا مُعامَلہ ہے اور اس کا اَنجام بَہُت بھیانک ہے۔حدیث شریف میں ہے: جو مالِ حرام لے کر حج کو جاتا ہے جب لَبَّیْک کہتا ہے، تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس شخص سے ارشاد فرماتاہے: نہ تیری لَبَّیْک قَبول ، نہ خدمت پذیر (یعنی منظور) اور تیرا حج تیرے منہ پر مَردُود ہے، یہاں تک کہ تُو یہ مالِ حرام کہ تیرے قبضے میں ہے اُس کے مُستَحِقّوں کو واپَس دے۔
(التذکرۃ فی الوعظ لابن جوزی ص۱۲۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۸۰) ہر دل عزیز خلیفہ
مقبولیَّتاورہر دلعزیزی بھی ایک بَہُت بڑا اعزاز ہے ، حُسنِ اَخلاق اور عَدْل واِنصاف کی بدولت امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ العَزِیْز کو یہ حاصِل تھا ، چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ ایک بار حج کے موسِمِ بہار میں جب میدانِ عَرَفات پہنچے تو لوگوں کی توجُّہ کا مرکز بن گئے ۔ حضرتِ سیِّدُناسُہَیل بن ابی صالِح رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ بھی اُس ہُجوم میں موجود تھے، اِنہوں نے اپنے والدِ محترم سے عرض کی: وَاللہ! میرے خیال میں اللہ عَزَّ وَجَلَّعمربن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ العَزِیْز سیمَحَبَّت فرماتا ہے، والِد صاحِب نے اِس کی دلیل پوچھی تو کہا : لوگوں کے دلوں میں ان کی خوب عزّت ہے ، پھر یہ حدیثِ پاک بیان کی کہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمہے : اللہ عَزَّ وَجَلَّ جب کسی بندے سے مَحَبَّت کرتا ہے تو جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) سے فرماتا ہے کہ میں فُلاں سے مَحَبَّتکرتا ہوں تم بھی اِس سے مَحَبَّت کرو چُنانچِہ (حضرتِ) جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) اُس سے مَحَبَّت کرتے ہیں ، پھر آسمان والوں میں ندادیتے (یعنی اعلان کرتے ) ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فُلاں سے مَحَبَّترکھتا ہے تم لوگ بھی اِس سے مَحَبَّت کرو، چُنانچِہ آسمان والے اُس سے مَحَبَّت کرنے لگتے ہیں ، اِس کے بعد اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس کو دُنیا میں مقبولِ عام بنادیتا ہے۔ ( تاریخِ دِ مشق ج۴۵ص۱۴۵) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
وہ کہ اِس در کا ہوا خَلْقِ خُدا اُس کی ہوئی
وہ کہ اِس در سے پِھرا اللہ اُس سے پِھر گیا