پنجاب (پاکستان) کے مشہور عاشقِ رسول بزرگ پیر سیِّد جماعت علی شاہمحدِّث علی پوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ایک مرتبہ مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً گئے تو اُن کے کسی مُرید نے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے ایک کتّے کو اِتِّفا قاً ڈَھیلا مار دیا جس کی چوٹ سے کُتّا چیخا، حضرت شاہ صاحِب سے کسی نے کہہ دیا کہ آپ کے فُلاں مُرید نے مدینے شریف کے ایک کُتّے کو مارا ہے۔یہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بے چَین ہوگئے اور اپنے مُریدوں کوحُکْم دیا کہ فوراً اُس کتّے کو تلاش کرکے یہاں لاؤ۔ چُنانچِہ کُتّا لایا گیا، شاہ صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اُٹھے اور ر وتے ہوئے اُس کتّے سے مخاطِب ہو کر کہنے لگے : اے دِیارِ حبیب کے رہنے والے ! للہ میرے مُرید کی اِس لغزِش کو مُعاف کردے ۔ پھر بُھنا ہوا گوشْتْ اور دُودھ منگوایا اور اُسے کھلایا پلایا، پھر اُس سے کہا: جماعت علی تجھ سے مُعافی چاہتا ہے ، خدارا اسے مُعاف کردینا۔ (سنّی علماء کی حکایات ص ۲۱۱ملخصا) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
دل کے ٹکڑے نَذْر حاضِر لائے ہیں
اے سگانِ کوچۂ دلدار ہم
(حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۰۴) آقا بلائیں تو اُڑ کر جاناچاہئے
خلیفۂ اعلیٰ حضرت ، فقیہِ اعظم حضرتِ علّامہ مولانا ابو یوسُف محمد شریف مُحدِّث کوٹلَوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے جگرگوشے حضرت مولاناابوالنُّورمحمد بشیر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَدِ یْر فرماتے ہیں : حضرتِ امیر ِ ملّت پیر سیِّد جماعت علی شاہ مُحدِّث علی پوری (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی) نے کئی حج کیے، تقریباً ہر سال مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا عشق انہیں اِس شَرَف سے مُشرَّف فرماتا۔ایک سال آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بذریعۂ ہوائی جہاز سفرِ حج کی ترکیب بنائی۔ والِدِمُعظَّم (فقیہِ اعظم حضرت علّامہ مولانا محمد شریف محدِّث کوٹلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی) کو پتا چلا تو مجھے ساتھ لے کر علی پور شریف پہنچے، حضرت کی خدمت میں حاضِر ہوئے، تو آپ مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً ہی کا ذکر ِخیر کررہے تھے، والدِ گرامی کو دیکھ کر بَہُت خوش ہوئے اور فرمایا: میں سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دربار میں پھرحاضِری دینے جارہا ہوں ، والدِ ماجِدعلیہ ر حمۃُ اللہ الحامدنے دریافْتْ کیا: حُضُور ! اِس بار سُنا ہے آپ ہوائی جہاز سے جارہے ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا: مولوی صاحِب ! یار بلائے تو اُڑ کر پہنچنا چاہیے ۔ یہ جُملہ کچھ ایسے انداز میں فرمایا کہ خود بھی آبدیدہ ہوگئے اور حاضِرین پر بھی ایک کیف طاری ہوگیا۔ (سُنّی عُلماء کی حکایات ص۴۵) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
تقدیر میں خُدایا عطارؔ کے مدینہ
لکھ دے فَقَط مدینہ سرکار کا مدینہ
(وسائلِ بخشش ص ۳۰۲)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۰۵) مولانا سردار احمد کی کھجورِ مدینہ سے مَحَبَّت