بادشاہی کس ہستی نے عطا کی؟ یقینا مدینے والے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ہی عنایت فرمائی ہے۔ لہٰذا شاہی تاج و لباس کے ساتھ حاضِر ہواہوں ۔ تا کہ دینے والا اپنی مبارَک آنکھوں سے دیکھ لے۔ (بارہ تقریریں ص ۲۰۴ بِتَّغَیُّر)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
کِس چیز کی کمی ہے مولیٰ تِری گلی میں
دنیا تِری گلی میں عُقبٰی تِری گلی میں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقِ بے مثال حضرتِ سیِّدُنا بِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا نام زَبان پر آتا ہے تو بے ساختہ ایک سرتاپا عاشقِ رسول ہستی کا تَصوُّر قائم ہوجاتا ہے ایمان لانے اور غُلامی سے آزادی پانے کے بعد عاشقِ بے مثال حضرتِ سیِّدُنا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی زندَگی کے حسین ایّام سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں گزارے لیکن وِصالِ ظاہری کے بعد ہجرِ رسول کی تاب نہ لاکر مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے ہِجرت کرکے ملکِ شام کے عَلاقے ’’دَارَیَّا ‘‘ میں سُکُونَت اِختیار فرمائی ۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک رات خواب میں سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے دِیدارِ فیض آثار سے مُشَرَّف ہوئے، لَبہائے مُبارَکہ کو جنبِش ہوئی، رَحمت ومَحبت کے پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے : ’’ مَاھٰذِہِ الْجَفْوَۃُ یَا بِلَال ! اَمَا آنَ لَکَ اَنْ تَزُوْرَنِی یَا بِلَال! یعنی اے بلال! یہ کیا جفا ہے ! کیاابھی وہ وقت نہ آیا کہ تم میری زیارت کیلئے حاضِری دو۔ ‘‘ عاشقِ بے مثال حضرتِ سیِّدنابِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیدار ہوتے ہی حکمِ سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعمیل میں مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی جانب روانہ ہوگئے اورسفر کرتے ہوئے مرکزِعُشَّاق دیارِ مدینہ کی نُورانی اور پُرکَیف فَضاؤں میں داخل ہوگئے، بے تابانہ مَدَنی سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے مزارِ پُر اَنوار پر حاضر ہوئے، ضَبْط کے بندھن ٹوٹ گئے، آنکھوں سے آنسوؤں کا تار بندھ گیا اور اپنا چِہرہ مَزارِ پاک کی مبارَک خاک پرمَس کرنے لگے۔ حضرتِ سیِّدُنا بِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آمدکی خبر سن کر گلشنِ رسالت کے دونوں مَہَکتے پھول سیّدینا حَسَنَینِ کرِیمَین (یعنی حضراتِ سیِّدَینا حسن و حسین ) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابھی تشریف لے آئے ۔ حضرتِ سیِّدُنا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بے ساخْتہ دونوں شہزادوں کو اپنے ساتھ لِپٹالیا اور پیارکرنے لگے۔ شہزادوں نے فرمائش کی: اے بِلال! ہمیں ایک بار پھروہ اذان سنا دیجئے جو آپ نانا جان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی حیاتِ ظاہری میں دیا کرتے تھے۔ اب اِنکار کی گنجائش کہاں تھی! چُنانچہ حضرتِ سیِّدُنا بِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی چھت پر اُس حصّے میں تشریف لے گئے جہاں وہ حُضُورِ پاک، صاحِبِ لَولاک، سَیّاحِ اَفلاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی حیاتِ ظاہِری میں اَذان دیا کرتے تھے۔جب حضرتِ سیِّدُنا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ’’اللہ اَکْبَر اللہ اَکْبَر ‘‘ سے اَذان کا آغازفرمایا تومدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں ہَلبَلی مچ گئی اور لوگ بے تاب ہوگئے، جب’’ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ‘‘ کے کلمات کہے تو ہرطرف آہ وبُکا کا شور برپا ہوگیا، پھر جب اس لفظ پر پہنچے: ’’ اَشْھَدُاَنَّ مُحْمَّدًارَّسُوْلُ اللہ ‘‘ تو لوگ بے تابانہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے: کیا سرکارِ نامدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم مزارِ پُر