عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

وَجَلَّ میں   خواب میں   جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کے دیدار سے شرفیاب ہوا،  میں   نے اپنے مَکّی مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی خدمت بابَرَکت میں   سلام عرض کیا اور دَست بوسی کی۔ شاہِ خیرُالْاَنام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے تَبسُّم فرماتے ہوئے سلام کا جواب دیااور فرمایا: 

’’اے  رَبِیْع!  ہم کتنے گواہ قائم کریں   اور تم ہو کہ قَبول ہی نہیں   کرتے،  سُنو! بات یہ ہے کہ جب تم نے اُس خاتون پر جومیری اَولاد میں   سے تھی، اِحْسان کیا اور اپنا زادِ راہ اِیثار کر کے اپنا حج ملتَوی کردیا تو میں   نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دُعا کی کہ وہ اِس کا نِعمَ الْبَدَل تمہیں   عطا فرمائے تو اللہ تَعَالٰی نے ایک فِرِشتہ تمہاری صورت پر پیدا فرمایا اورحُکم دیاکہ وہ قِیامت تک ہر سال تمہاری طرف سے حج کیا کرے نیز دُنیا میں   تمہیں   یہ عِوَض  (یعنی بدلہ )  دیا کہ 600 دِرہم کے بدلے 600 دینار  (سونے کی اشرفیاں   )  عطا فرمائے،  تم اپنی آنکھ ٹھنڈی رکھو۔ ‘‘ پھر حُضُور،  فیض گنجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے تھیلی کی مُہر پر لکھے ہوئے مبارَک اَلفاظ ارشاد فرمائے:  ’’مَنْ عَامَلَنَا رَبِحَ ‘‘ (یعنی جوہم سے مُعامَلہ کرتا ہے نَفْعْ پاتا ہے)  حضرت رَبِیْع علیہ رَحمَۃُ اللہ البدیع فرماتے ہیں   کہ جب میں   سو کر اُٹھا اور اُس تھیلی کوکھولا تو اُس میں   600سونے کی اَشرفیاں   تھیں   ۔ (رشفۃُ الصّادی ص۲۵۳)  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔  اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

تیرے  قدموں    کا  تَبَرُّک  یدِ بَیضائے  کلیم

تیرے  ہاتھوں    کا  دِیا   فضلِ  مسیحائی  ہے

 (ذوقِ نعت)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (۹۱)  شیخ شبلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی کا حج

          حضرتِ سیِّدُنا شیخ شِبلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی جب حج کیلئے عَرَفات شریف پہنچے تو بالکل چُپ رہے،  سُورج غُروب ہونے تک کوئی لفظ مُنہ سے نہ نکا لا،  جب دَورانِ سعی مِیلینِ اَخضَرَین سے آگے بڑھے تو آنکھوں   سے آنسو بہنے لگے ،  روتے ہوئے اُنھوں   نے عَرَبی میں   اَشعار پڑھے جن کا ترجَمہ یہ ہے: 

 (۱) میں   چل رہا ہوں   اِس حال میں   کہ میں   نے اپنے دِل پر تیری محَبَّت کی مُہر لگا رکھی ہے تاکہ اِس دِل پر تیرے سِوا کسی کا گزر نہ ہو (۲) اے کاش! مجھ میں   یہ اِستِقامت ہوتی کہ میں   اپنی آنکھوں   کو بند رکھتا اور اُس وَقت تک کسی کو نہ دیکھتا جب تک تجھے نہ دیکھ لیتا (۳)  جب آنکھوں   سے آنسو نکل کر رُخساروں   پر بہنے لگتے ہیں   تو ظاہِر ہوجاتا ہے کہ کون واقِعی رو رہا ہے اور کس کا رونا بناوَٹی ہے۔  (رَوضُ الرَّیاحین ص ۱۰۰ )  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔  اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

سچ ہے انسان کو کچھ کھو کے مِلا کرتا ہے

آپ کو کھو کے تجھے پائے گا جَویا تیرا

 (ذوقِ نعت)

 (۹۲)  چھ لاکھ میں    سے صِرْف چھ!

          حضرت سیِّدُنا ابوعبدُاللہجَوہَری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں   کہ میں   ایک سال  عَرَفات شریف میں   تھا، مجھے اُونگھ آ گئی

Index