(حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۸۱) بُرقَع پوش اَعرابِیَّہ
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُالمدینہ کی مطبوعہ 397 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’پردے کے بارے میں سُوال جواب ‘‘ صَفْحَہ 339تا341پرہے: حضرتِ سیِّدُنا سُلَیمان بن یَسا ر عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ ِالْغَفَّار انتِہائی مُتّقی و پرہیز گار، بے حد خُوبرو اور حسین نوجوان تھے۔ سفرِ حج کے دَوران مقامِ اَبواء پر ایک بار اپنے خَیمے (CAMP) میں تنہا تشریف فرما تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ کا رفیقِ سفر کھانے کا انتِظام کرنے کیلئے گیا ہوا تھا۔ ناگاہ ایک بُرقَع پوش اَعرابِیّہ ( یعنی عرب کی دِیہاتی عورت) خَیمے میں داخِل ہوئی اوراُس نے چہرے سے نِقاب اُٹھا دیا! اُس کا حُسن بَہُت زیادہ فِتنہ برپا کر رہا تھا ! کہنے لگی : مُجھے’’ کچھ ‘‘ دیجئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ سمجھے شاید روٹی مانگ رہی ہے۔ کہنے لگی : میں وہ چاہتی ہوں جو بیوی اپنے شوہر سے چاہتی ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے خوفِ خدا سے لرزتے ہوئے فرمایا: ’’ تجھے میرے پاس شیطان نے بھیجا ہے۔ ‘‘ اِتنا فرمانے کے بعد اپنا سرِ مبارَک گُھٹنوں میں رکھ کربَآوازِ بُلند رونے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر بُرقَع پوش اَعرا بِیّہ گھبرا کر تیز تیز قدم اُٹھائے خَیمے سے باہَر نکل گئی۔ جب رفیق (ساتھی) آیااور دیکھا کہ رو رو کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے آنکھیں سُجا دِیں اور گلا بٹھادیا ہے، تو اُس نے سببِ گرِیہ (یعنی رونے کا سبب) دریافْتْ کیا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے اوَّلاً ٹالَمْ ٹَول سے کام لیا مگر اُس کے پَیہم اِصرار پر حقیقت کا اظہار کر دیا تو وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ فرمایا: تُم کیوں روتے ہو؟ عرض کی: مجھے تو زِیادہ رونا چاہئے کیوں کہ اگر آپ کی جگہ میں ہوتا تو شایدصَبْر نہ کر سکتا (یعنی ہوسکتا ہے گناہ میں پڑجاتا) ۔ دونوں حَضرات رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہما رو تے رہے یہاں تک کہ مکّۂ مُکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں حاضِر ہو گئے۔ طواف وسَعی و غیرہ سے فارِغ ہونے کے بعد حضرتِ سیِّدُنا سُلیمان بن یَسار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ ِالْغَفَّار حجراسود کے پاس تشریف لائے اورچادر سے گُھٹنوں کے گرد گھیرا باندھ کر بیٹھ گئے۔ اِتنے میں اُونگھ آ گئی اور عالَمِ خواب میں پَہُنچ گئے، ایک حُسن و جمال کے پیکر ، مُعَطّر مُعَطّر خوش لباس دراز قد بُزُرْگ نظر آئے، حضرتِ سیِّدُناسُلَیمان بن یَسار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ ِالْغَفَّارنے پوچھا: آپ کون ہیں ؟ جواب دیا : میں (اللہ عَزَّ وَجَلَّکا نبی) یوسُف ہوں ۔ عَرْض کی: یا نبیَّ اللہ! عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام زُلَیخا کے ساتھ آپ کا واقِعہ عجیب ہے۔ فرمایا: مَقامِ اَبواء پر اَعرابِیّہ کے ساتھ ہونے والا آپ کا واقِعہ عجیب تر (یعنی زیادہ عجیب) ہے۔ ( اِحْیاءُ الْعُلُومج۳ ص ۱۳۰ مُلَخَّصاً ) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم دیکھا آپ نے! حج کے مبارَک سفر میں شیطان کس طرح حاجیوں کو گناہوں میں پھنسا نے کی ترکیبیں کرتا ہے مگر قربان جایئے عاشقانِ رسول کے پاکیزہ کردار پر کہ وہ شیطان کے ہر وار کو ناکام بناتے چلے جاتے ہیں جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا سُلَیمان بن یَسا ر عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ ِالْغَفَّار نے خود چل کر آنے والی بُرقَع پوش اَعرابِیّہ کو ٹھکرا دیا بلکہ خوفِ خدا سے رونا دھونا مچا دیا، جس کے نتیجے میں حضرتِ سیِّدُنا یوسُف عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے خواب میں تشریف لا کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہما کی حوصلہ اَفزائی فرمائی۔ بَہَر حال دنیا و آخِرت کی بھلائی اِسی میں ہے کہ جِنْسِ مُخالِف (یعنی مرد کا عورت اور عورت کا مرد) لاکھ دل لُبھائے اور گناہ پر اُ کسائے مگر انسان کو