صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۲۲) دَرِندہ بھی تابِع ہوگیا
حضرتِ سیِّدُنا سُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی اور حضرت سیِّدُنا شَیْبان راعِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ دونوں حج کے ارادے سے نکلے تو ان کے سامنے ایک درِندہ آ گیا۔ حضرتِ سیِّدُنا سُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے حضرتِ سیِّدُنا شَیْبان راعِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے فرمایا: ’’کیاآپ اِس دَرِندے کو نہیں دیکھ رہے؟ ‘‘ تو انہوں نے فرمایا: ’’ڈریئے مت ۔ ‘‘ پھرحضرت سیِّدُنا شَیْبان راعِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اُس کا کان پکڑکر دبا یا تو وہ دُم ہِلانے لگا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اُس کی دُم پکڑلی ، اس پر حضرت سیِّدُنا سُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے فرمایا: کیایہ ’’شُہرت ‘‘ نہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’’اگر مجھے شُہرت کا خوف نہ ہوتا تو میں اپنازادِراہ اِس کی پیٹھ پر لاد کر مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً لے جاتا۔ ‘‘ (الروض الفائق ص۱۰۳ ) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
شیر کا خطرہ کیا شیر خود کانپ اٹھا!
سامنے جب نبی کا غلام آ گیا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
’’کیا یہ شہرت نہیں ؟ ‘‘ کی وضاحت
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ! دَرِندے بھی اللہِ والوں کے تابِع ہو جاتے ہیں ۔ اِس حکایت میں مشہور تابِعی بُزُرگ زبردست عالم و مُحَدِّث سیِّدُنا سُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کا سوال کرنا لوگوں کو حضرت سیِّدُنا شَیْبان راعِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بارے میں حبِّ جاہ کے تعلّق سے بدگمانی سے بچانے کیلئے تھا اور اِس سوال کا انہوں نے بھی کیا خوب جواب ارشاد فرمایا۔بَہر حال یہ بڑوں کی باتیں ہیں یہ حضرات اِخلاص کے پیکر ہُوا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی باطِنی اصلاح کا خیال رکھا کرتے تھے ۔
حضرتِ سیِّدُنا سفینہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رُوم کی سرزمین میں جِہاد کے دَوران اسلامی لشکر سے بچھڑگئے اور لشکر کی تلاش میں دوڑتے ہوئے چلے جارہے تھے کہ اچانک جنگل سے ایک شیر نکل کر ان کے سامنے آگیا، آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بُلند آواز سے فرمایا: یَا اَبَا الْحَارِثِ! اَنَا مَوْلٰی رَسُولِ اللہ اے ابوالحارث! (یہ شیر کی کنیت ہے) میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا غلام ہوں اورمیرا مُعامَلہ یہ ہے کہ میں لشکرِ اسلام سے الگ پڑگیا ہوں اورلشکرکی تلاش میں ہوں ۔ یہ سن کرشَیر دُم ہلا تا ہوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا اور برابر ان کو اپنے ساتھ میں لئے ہوئے چلتا رہا یہاں تک کہ یہ لشکرِ اسلام میں پہنچ گئے تو شیر واپس چلا گیا۔ (مشکٰوۃ ج۲ص۴۰۰حدیث۵۹۴۹)
شیر کا خطرہ کیا! شیر خود کانپ اُٹھا
سامنے جب نبی کا غلام آ گیا