نُمایَندے کو اِس کی تحقیقات پر مامور کیا۔ نُمایَندے کی رپورٹ کے مطابِق حُجرۂ مُطَہَّرہ کی دیواروں کی’’ خدمت ‘‘ کی اَشَد ضَرورت تھی اور خاص طور پر پنج گوشہ شریف کی شَرْقی (EAST) دیوار کی بھی کہ اس میں کچھ دَراڑیں پڑنی شروع ہوگئی تھیں۔چُنانچہِ 14 شَعبانُ المعظم 881 سنِ ہجری کو پنج گوشہ شریف کے مُتأَثِّرہ حصّے نکال لیے گئے، ساتھ ہی ساتھ حُجرۂ مُطَہَّرہ کی پُرانی چھت شریف بھی ہٹالی گئی اور شَرْقی جانِب تقریباً ایک تِہائی حصّے پر چھت ڈال دی گئی جس سے یہ ایک تہ خانے کی مانِند نظر آنے لگا، جب کہ باقی کے دو تِہائی حصّے پر چھت کی ترکیب نہیں کی گئی بلکہ اِس کے اوپرتینوں مبارَک قبروں کے سِرہانوں کی جانب مُنَقَّش پتّھروں سے بناہوا ایک چھوٹا سا مگر عَظَمت میں بَہُت بڑاگنبد حُجرۂ پاک پر تعمیر کردیا گیا اُس کے اوپر سفید سنگِ مرمر لگایا گیا اور پیتل کا ہِلال (چاند) نَصْب کردیا گیا۔ اس کے اوپر مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی چھت کو مزید بُلند کردیا گیا تاکہ یہ چھوٹا گنبد اپنے ہِلال (چاند) سمیت مسجدِکریم کی چھت شریف کے نیچے آجائے ۔پھراس کے اوپر بڑا گنبد شریف تعمیر کیا گیا۔17 شَعبانُ المُعظَّم 881 ہجری کو حُجرۂ مُطَہَّرہ کی ’’خدمت ‘‘ اور تعمیرِ نو کا کام شُروع ہوا اور دو ماہ میں مکمَّل ہوا، یہ کام 7 شوّالُ المکرم 881 ہجری کو ختْم ہوا۔سلطان قایتبائی مُؤَرَّخہ 22 ذُوالْحِجّۃِالحرام 881ھ کو مدینۃُ المنورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً حاضِر ہوئے اور اُنہوں نے اُسی مقام سے حاضِری دی جہاں سے عوامُ النّاس کھڑے ہو کر سلام عَرض کرتے ہیں ( یعنی جالی مبارک کے سامنے کھڑے ہو کرمُواجَھَہ شریف کے سامنے سے) ۔ جب انہیں جالی مبارَک کے اندر داخِل ہونے کی عَرْض کی گئی تو فرمانے لگے : میں اِس قابل کہاں ! اگر ممکن ہوتا تومیں مُواجَھَہ شریف سے بھی دُور کھڑے ہو کر سلام عرض کرتا۔
نہ ہم آنے کے لائق تھے نہ قابِل منہ دکھانے کے
مگر اُن کا کرم بندہ نواز و بندہ پرور ہے
(ذوق نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مُؤَذِّن پر دورانِ اذان آسمانی بجلی گری
13 رَمَضان المبارَک 886ہجری کو آسمان ِ مدینہ کا مطْلَع اَبر آلود تھا، مؤذِّن صاحب حسبِ معمول مینارۂ رئیسیہ پر اذان دینے کی غَرَض سے چڑھے ہی تھے کہ اچانک ان پربجلی گری، مؤذِّن صاحِب موقع پر ہی شہید ہوگئے اور مینارۂ رئیسیہ مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جانب گر پڑا، مسجدِکریم میں آگ بھڑک اٹھی، ناگہانی آگ کی لپیٹ میں آکر اور بھگدڑ وغیرہ میں مزید دس آدَمی فوت ہوئے، آگ اور مَنارے کے گرنے سے گنبد شریف کوبھی ’’صدمہ ‘‘ پہنچا اور کچھ مَلْبہ حُجْرَۂ مُطَہَّرہ کے اندر بھی حاضِری کے لئے جا پہنچا، تاہم حُجرئہ شریفہ’’صدمے ‘‘ سے محفوظ رہا، اگرچِہ فوری نوعیت کی’’ تعمیری خدمت ‘‘ تو کروادی گئی مگر مکمَّل تفصیلات کے ساتھ سلطان قایِتْبائی کو 16 رَمَضانُ المبارَک کو قاصد کے ذَرِیعے پیغام بھیج دیا گیا۔سلطان نے مِصْر سے ضَروری سامان اور ایک سو سے زیادہ معمار ، کاریگر اور مزدور مدینۃُ المُنّورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً روانہ کردیئے۔کام شروع کردیا گیا، باہَر والا گنبدشریف جس کو بہت زیادہ’’صدمہ ‘‘ پہنچا تھا مکمَّل طور پر ہٹالیا گیا، سلطان قایِتْبائیکے حکم سے 892 سن ہجری میں باہَر کی جانب ایک نیا گنْبدشریف تعمیر کیا گیا جو کہ صدیوں تک قائم رہا۔