صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ’’بابُ السَّلام ‘‘ سے اندر داخِل ہوا تو دیکھا کہ اعلٰی حضرت، عظیمُ البَرَکَت، عظیمُ الْمَرْتَبت، پروانۂِ شَمْعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِ سنّت، ماحِیِ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت ، پیرِِطریقت ، باعثِ خَیْر وبَرَکت، حضرتِ علّامہ مولانا الحاج اَلحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن مُوَاجَہَہ شریف کی طرف منہ کرکے کھڑے ہیں اور سلام پڑھ رہے ہیں ۔میں قریب گیا تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ میری نظروں سے غائب ہوگئے۔میں مُواَجَہَہ شریف کی طرف چلا گیا اور صلوٰۃ وسلام کا نذرانہ پیش کرکے عَرْض کی: ’’ یارسولَ اللہ ! مجھے میرے شیخ (امام احمد رضا خان ) کی زیارت سے مَحروم نہ رکھا جائے۔ ‘‘ سیِّدی قُطبِ مدینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ میں نے مُوَاجَہَہ شریف کی پائِنتی (پا۔اِنْ۔تی۔یعنی قدمَین شریفین) کی طرف دیکھا تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بیٹھے دکھائی دیئے، میں نے دَوڑ کراعلیٰ حضر ت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی قدم بوسی کی اور زیارت سے فیض یاب ہوا۔ (ایضاً ص۲۳۸ملخصا) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
غمِ مصطَفٰے جس کے سینے میں ہے
کہیں بھی رہے وہ مدینے میں ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۱۴) قطبِ مدینہ اور غریب زائرِ مدینہ
حضرتِ حکیم محمد موسیٰ اَمَرتَسری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : جن دنوں میں مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں حاضر تھا، سیِّدی قُطبِ مدینہ حضرت مولانا ضیاء ُالدین احمد قادری مدنی عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہ الغَنِیکی خدمت میں بھی حاضِری ہوتی ۔ کھانے کے وَقت ایک مفلوکُ الحال شخص آتا اور کھانا کھا کر چلا جاتا۔ میں نے ایک دن دل میں سوچا کہ یہ شخص خوامخواہ کھانے کے وقت آجاتا ہے اور حضرت کو تکلیف دیتا ہے! اسی دن جب محفِل برخاست ہوئی سیِّدی قُطبِ مدینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ حکیم محمد موسیٰ مجھ سے مل کر جانا۔ میں خدمت میں حاضِر ہوا تو فرمایا : حکیم صاحِب! یہ جو غریبُ الْحال شخص ہر روز کھانا کھانے کے لیے آتا ہے، یہ پاکستان کے شہر لائل پور (سردار آباد ، فیصل آباد) میں ایک مِل میں معمولی ملازِم ہے، اسے ہر سال شَہَنْشاہِ بحرو بر ، مدینے کے تاجوَر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے روضۂ انور کی زیارت نصیب ہوتی ہے، بڑا خوش بخْت ہے اور مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا زائِر ہے میں اِس لیے اِس کو کھانا کھلاتا ہوں ۔ (انوارِقطبِ مدینہ ص۲۷۷ ملخصا) اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
تھکا ماندہ ہے وہ جو پاؤں اپنے توڑ کر بیٹھا
وُہی پہنچا ہوا ٹھہرا جو پہنچا کُوئے جاناں میں
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۱۵) کعبۂ مُشرَّفہ کا طواف کرنے والی جنّ عورَتیں