حضرتِ سیِّدُناابو الفَضْل ابنِ زِیرَک قُومَسَانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّ بَّانِی فرماتے ہیں : میرے پاس خُراسان سے ایک عاشقِ رسول آیا اور کہنے لگا: اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں مسجدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممیں سویا ہوا تھا کہ جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے مجھ پر خواب میں کرم فرمایا: لبہائے مبارکہ وا ہوئے ، رحمت کے پھول جھڑنے لگے اورالفاظ کچھ یوں ترتیب پائے: جب تو ہَمَذَان جائے توابو الفَضْل ابنِ زِیْرَک کو میرا سلام کہنا ۔ میں عرض گزار ہو ا : یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! ان پر اس کرم کی وجہ؟ فرمایا: ’’وہ روزانہ 100بارمجھ پردُرُودِ پاک پڑھتا ہے۔ ‘‘ سیِّدُناابو الفَضْل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : پھر وہ خُراسانی (مجھ سے) کہنے لگا : مجھے بھی وہ دُرُودِپاک بتا دیجیے (جسکا آپ ورد کرتے ہیں ) تومیں نے اسے بتایا کہ میں روزانہ 100یا اس سے زیادہ مرتبہ یہ دُرُودِ پاک پڑھتا ہوں : اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِنِالنَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ جَزَی اللہ مُحَمَّدًاعَنَّا مَاھُوَ اَھْلُہٗ ۔
اُس عاشقِ رسول نے یہ دُرُودِ پاک مجھ سے سیکھ لیا اور قسم کھا کر کہنے لگا: میں آپ کو جانتا تھا نہ آپ کا کبھی نام سناتھا، آپ کے بارے میں مجھے نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہی بتایا ۔حضرتِ سیِّدُناابو الفَضْل ابنِ زِیْرَک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں نے اُس خوش نصیب عاشقِ رسول کو تحفہ پیش کیا تاکہ اپنے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں کچھ مزید اُس سے سنُوں ، لیکن قَبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے وہ بولا: میں سلطانِ انبیائے کرام، رسولِ ذی احترام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کامبارَک پیغام پہنچانے کاکوئی دُنیوی بدلہ نہیں چاہتا۔اس کے بعد اُس عاشقِ رسول کو میں نے دوبارہ کبھی نہ دیکھا۔
(تاریخ الاسلام للذہبی ج۳۲ ص۶۳ )
(۵۲) والدِ مرحوم پر جنگل میں کرم بالائے کرم
حضرتِسیِّدُنا سُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ’’میں نے دَورانِ طواف ایک عاشقِ رسول کو ہر قدم پر حُضُور نبیِّ پاک ، صاحِبِ لولاک، سیّاحِ اَفلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُودِ پاک پڑھتے ہوئے دیکھا تو پوچھا: ’’ بھائی! ’’سُبْحٰنَ اللہ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ‘‘ کے بجائے صِرْف دُرُودِ پاک پڑھے جانے میں کیا راز ہے؟ ‘‘ تواُس نے میرا نام دریافْتْ کیا، پھر کہا: میں اپنے والِدِ گرامی کے ساتھحجِّ بیتُ اللہکے لئے چلا، اَثنائے سفَر (یعنی سفر کے دَوران) والدِ بزرگوار شدید بیمار ہو گئے، ہم ایک مقام پر ٹھہر گئے۔ علاج مُعالَجہ کیا مگر قضائے الٰہی سے وہ وفات پاگئے ، یکایک اُن کا چِہرہ سیاہ اور آنکھیں تِرچھی ہوگئیں اور پیٹ بھی پھول گیا۔ یہ دیکھ کرمیں گھبرا گیا اور روتے ہوئے پڑھا: ’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ (۱۵۶) ‘‘ ([1]) میں نے مرحوم کے چہرے پر چادراُڑھا دی۔ اِسی پریشانی کے عالَم میں مجھے نیند نے آگھیرا، میں نے خواب میں اِنتِہائی صاف سُتھرے لباس میں ملبوس ایک حُسن وجمال کے پیکر مُعَطَّر مُعَطَّر بُزُرْگ کی زیارت کی ، ایسا صاحِبِ حُسن وجمال میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور ایسی خوشبو بھی میں نے کبھی نہیں سونگھی تھی، وہ میرے والِدِ مرحوم کے قریب تشریف لے آئے ، چادر ہٹائی اور اپنا نورانی ہاتھ اُن کے چِہرے پر پھیرا۔دیکھتے ہی دیکھتے مرحوم کے چِہرے کی سیاہی نُور میں تبدیل ہوگئی ، آنکھیں اور پیٹ بھی دُرُست ہو گئے، جب وہ نُورانی بُزُرْگ واپَس جانے کے لئے پلٹے تو میں اُن کے دامن سے لپٹ گیااورعرض کی: ’’آپ کون ہیں ؟ جن کے سبب اللہ عَزَّ وَجَلَّنے میرے والِدِ مرحوم پر اِس ویرانے میں یہ