حضرتِ سیِّدُنا علی بن مُوَفَّق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الحَق فرماتے ہیں : میں نے حج کی سعادت حاصِل کی، کعبۂ مُشَرَّفہ کا طواف کیا، حجرِ اسود کا بوسہ لیا، دو رَکْعت نمازِ طواف پڑھی اور کعبہ شریف کی دیوار کے ساتھ بیٹھ کر رونے لگا اور بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں عرض کی : ’’یا اللہ ! میں نے تیرے پاک گھر کے گِرد نہ جانے کتنے ہی چکّر لگائے مگر میں نہیں جانتا کہ قَبول ہوئے یا نہیں ! ‘‘ پھر مجھ پرغُنُودَگی طاری ہو گئی، میں نے ایک غیبی آواز سُنی: ’’اے علی بن مُوَفَّق ْ! ہم نے تیری بات سن لی ہے ، کیاتُو اپنے گھر میں صِرْف اُسی کو نہیں بلاتا جس سے تو مَحَبَّت کرتا ہے ! ‘‘ (الروض الفائق ص۵۹) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
بُلاتے ہیں اسی کو جس کی بگڑی یہ بناتے ہیں
کمر بندھنا دِیارِ طیبہ کو کُھلنا ہے قسمت کا
(ذوقِ نعت)
(۶۴) صَبْرکرتے توقدموں سے چشمہ جاری ہوجاتا
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بنحُنَیْف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ـ: ’’میں حج کے ارادے سے چلا، بغداد پہنچنے تک حالت یہ تھی کہ لگاتارچالیس دن تک کچھ نہ کھایاتھا۔سخت پیاس کی حالت میں جب ایک کُنوئیں پر گیاتووہاں ایک ہِرَن پانی پی رہا تھا، مجھے دیکھتے ہی ہِرن بھاگ کھڑا ہوا، جب میں نے کُنوئیں میں جھانکا تو پانی بَہُت نیچے تھا اور اِسے بِغیر ڈَول کے نکالا نہیں جاسکتا تھا ۔میں یہ کہتے ہوئے چل دیا: ’’ میرے مالِک ومولیٰ عَزَّ وَجَلَّ! میرا مر تبہ اس ہِرَن کے برابربھی نہیں ! ‘‘ تو مجھے پیچھے سے آواز آئی: ’’ہم نے تجھے آزمایاتھالیکن تُو نے صَبْر نہ کیا، اب واپَس جااور پانی پی لے۔ ‘‘ جب میں گیا تو کُنواں اوپر تک پانی سے بھراہواتھا، میں نے خوب پیاس بجھائی اور اپنا مشکیزہ بھی بھر لیا توغیب سے ایک آواز سنی: ’’ہِرَن تو مشکیزے کے بِغیر آیا تھا لیکن تم مشکیزے کے ساتھ آئے ہو۔ ‘‘ میں راستے بھر اُسی مشکیزے سے پانی پیتا اور وُضو کرتا رہا مگر پانی خَتْم نہ ہوا۔پھر جب حج سے واپَسی ہوئی اور جامِع مسجِد میں داخِل ہوا تو وہاں حضرتِ سیِّدُنا جُنید بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیتشریف فرما تھے، اُنہوں نے مجھے دیکھتے ہی ارشادفرمایا: ’’ اگر تم لمحہ بھر بھی صَبْر کرلیتے تو تمہارے قدموں سے چَشمہ جاری ہوجاتا۔ ‘‘ (الروض الفائق ص۱۰۳) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
اُن کے طالِب نے جو چاہا پا لیا
اُن کے سائل نے جو مانگا مِل گیا
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنا قاسِم بن عثمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان جو کہ صاحبِ علْم و فَضل اور مُتّقی بُزُرْگ تھے، فرماتے ہیں : میں نے ایک شخص کودیکھا کہ دَورانِ طواف صِرْف یِہی دُعا کئے جا رہا تھا: اَللّٰھُمَّ قَضَیْتَ حَاجَۃَ الْمُحْتَاجِیْنَ وَحَاجَتِیْ لَمْ تَقْضِ یعنی ’’اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تُو نے سب حاجت مندوں کی حاجت پوری فرمادی اور میری حاجت پوری نہیں ہوئی۔ ‘‘ میں نے اُس سے جب اِس نرالی دُعا کی تکرار کے