دونوں پتَّھر لے آئے اور یہ پیغام ِالٰہی بھی پہنچایا ابراھیم عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے حکمِ الٰہی کے مطابق سنگِ اسود کو تو ایک گوشے میں لگا دیا اوربڑے پر کھڑے ہو کرتعمیر کاکام جاری کیا جس قدرعمارت بُلندہوتی جاتی تھی یہ پتَّھر بھی اُونچا ہوتا جاتا تھا یہاں تک کہ آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام تعمیر سے فارِغ ہوئے۔ (تفسیر نعیمی ج۱ ص ۶۸۰)
ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ ومنیٰ
لولاک والے ! صاحبی سب تیرے گھر کی ہے
(حدائق بخشش)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
یہ جنَّتی پتَّھر ہے ، حدیثِ پاک میں ہے: رُکن (یعنی حجر اسود) اور مَقامِ (ابراھیم) دو’’ جنَّتی یاقُوت ‘‘ ہیں ۔ پہلے بَہُت نورانی تھے ۔ اللہتعالیٰ نے اِن کا نور مَحْوْ کر (یعنی چھُپا ) دیا اگر ایسا نہ ہو تاتو یہ مشرِق و مغرِب کو چمکاتے۔ (تفسیرِ نعیمی ج۱ ص ۶۳۰) ایک اور رِوایت میں ہے : جب سنگِ اَسوَد دیوارِ کعبہ میں قائم کیا گیا تو اس کی روشنی چاروں طرف دُور تک جاتی تھی جہاں تک اس کی روشنی پہنچی وہاں تک حرم کی حُدُود مقرر ہوئیں جس میں شکار کرنا منع ہے اور سنگِ اَسوَد کا رنگ بالکل سفید تھا گنہگاروں کے ہاتھوں سے سیاہ ہو گیا۔ (ایضا