عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

آنے تک میرے اُونٹ کا خیال رکھنا،  مجھے مدینۂ طیِّبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًایک ضَروری کام کے لئے جانا ہے ۔ساتھیوں   نے کہا کہ اب قافِلے کی روانگی کا وَقْت ہے اور ہمیں   اَندیشہ ہے کہ اگر تم قافِلے سے جُدا ہوگئے تو پھر اِسے مَکّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً تک بھی نہ پاسکو گے۔ میں   نے کہا:  تو پھرمیری سُواری کو بھی اپنے ساتھ ہی لیتے جانا۔

          میں   واپَسمدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  آیا اور روضۂ اَقدَس پر حاضِر ہو کر اُس عاشقِ رسول کا سلام شَہَنْشاہ خیرُالانام صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اور حضراتِ صَحابۂ کرام  عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی مبارَک بارگاہوں   میں   پیش کیا۔ رات ہو چُکی تھی،  میں   مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے باہَر نکلا تو ایک شخص ذُوالْحُلَیفَہ کی طرف سے آتا ہُوا مِلا،  میں   نے اُس سے قافِلے کیمُتَعلِّق پوچھا ،  اُس نے بتا یا کہ قافِلہ روانہ ہوچُکا ہے۔ میں   مسجِدُ النَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں   لوٹ آیا اور خیال کیا کہ کسی دوسرے قافِلے کے ساتھ چلا جاؤں   گا اور سوگیا۔ آخِرِ شب میں   خواب میں   جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اورشیخین کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکی زِیارت سے شَرَفیاب ہوا۔ حضرتِ سیِّدُناصِدِّیقِ اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے  عرض کی:  ’’ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! یہی وہ شخص ہے۔ ‘‘ حُضُورِ اَکرَم،  نورِمُجسَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے میری طرف دیکھا اور فرمایا:  ’’ابو الوَفاء!  ‘‘ میں  نے عرض کی:   یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میری کُنیت تو ابوالعبّاس ہے۔ فرمایا:  تم ابو الوَفاء (یعنی وفادار) ہو۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرا ہاتھ پکڑا اورمجھیمکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں اور وہ بھی خاص مسجدُالحرام میں   رکھ دیا!  میں   نے مَکّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں8 دن تک قِیام کیا اِس کے بعد میرے رُفَقا کا قافِلہمکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پہنچا۔    (رَوضُ الرَّیاحین ص ۳۲۲ )  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

غمزَدوں   کو رضا ؔمُژدہ دیجے کہ ہے

بیکسوں    کا   سہارا   ہمارا   نبی

 (حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۷) حاضِرین نے روضۂ انور سے جوابِ سلام سنا

    حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابونَصرعبدُالواحدبِن عبدُالمَلِک بِن محمد بِن ابو سعید صوفی کرخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں   کہ میں   حج سے فارِغ ہوکرمدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً آیا اور روضۂ اَنور پر حاضِر ہوا،  حُجرۂ شریفہ کے پاس بیٹھا ہواتھاکہ حضرتِ شیخ ابوبکردِ یار بِکری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی تشریف لائے اور چہرہ ٔانور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیا:  اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَارَسُولَ اللہتومیں   نے اور تما م حاضِرین نے سُنا کہ روضۂ انور کے اَندر سے آواز آئی :  وَعَلَیْکَ السَّلامُ یَا اَبَابَکْرٍ۔ (اَلْحاوی لِلفَتاوِی ج ۲ ص ۳۱۴)  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

وہ سلامت رہا قیامت میں        پڑھ لئے جس نے دِل سے چارسلام

اس جوابِ سلام کے صدقے   تاقِیامت ہوں   بے شمار سلام

 

Index