کسی بُزُرْ گ نے حج کے روز عَرَفات شریف کے میدان میں شیطان کو بشکلِ انسان اس حال میں دیکھا کہ وہ نہایت کمزور و زَرْد رُوہے، اس کی پیٹھ ٹوٹی ہوئی ہے اور رو رہا ہے۔ بُزُرگ کے پوچھنے پر اُس نے اپنے رونے کا سبب کچھ یوں بتایا کہ چونکہ یہاں اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رِضا کیلئے حاجی اکٹّھے ہوئے ہیں ، لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان کو رُسوا نہیں کرے گا، مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں سارے ہی بَخْش نہ دیئے جائیں ! اپنی کمزوری کا سبب اُس نے راہِ خدا کے مُسافِروں کے گھوڑوں کا ہَنہَنانا (ہَنْ۔ہَ۔نانا) بتایا اوربصد افسوس کہا کہ اگر یہ سُوار ( یعنی راہِ خدا کے مسافِر) میری پسند کے (یعنی غفلتوں اورگناہوں بھرے ) راستوں پر ہوتے توبَہُت خوب تھا ۔ زَرد رُوئی یعنی چِہرہ پِیلا پڑ جانے کا سبب اُس نے عبادت پر لوگوں کا ایک دوسرے کی مدد کرنا قرار دیا۔ اُن بُزُرْگ نے جب یہ پوچھا کہ تیری کمر کیوں ٹوٹی ہوئی ہے؟ توبولا: بندہ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دُعا کرتا ہے: ’’ یاللہ ! میرا خاتِمہ بالخیر فرما ‘‘ تو مجھے سخت صدمہ ہوتا ہے اور میری خواہِش ہوتی ہے کہ یہ اپنے نیک عمل کو ’’ کُچھ ‘‘ (یعنی بڑا کارنامہ ) سمجھے، اِس پر خوب اِترائے اورپُھولے تا کہ برباد ہو، مجھے اس بات کا خوف آتا ہے کہ کہیں اِس کو یہ سمجھ نہ آ جائے کہ اپنے عمل پر اِترانا نہیں چاہئے بلکہ صِرْف وصرْف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحْمت پر نظر رکھتے ہوئے عاجِزی اختیار کرنی چاہئے۔(احیاء العلوم ج۱ ص ۳۲۲ملخّصًا )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۷۸) بُلندی چاہنے والے کی رُسوائی
ایک بُزُرْگ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : میں نے مَکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں صَفا اور مروہ کے درمیان ایک خَچَّر سُوار دیکھا، کچھ غُلام ’ ’ ہٹ جاؤ! ہٹ جاؤ! ! ‘‘ کی آوازیں لگا کر اُس کے سامنے سے لوگوں کوہٹا رہے تھے۔کچھ عرصے بعد مجھے وُہی شخص بغداد میں لمبے بال، ننگے پاؤں اور حسرت زدہ نظر آیا، میں نے حیرت سے پوچھا: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّنے تیرے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟ ‘‘ جواب دیا : میں نے اَیسی جگہ (یعنی مکۂ پاک میں ) ’’بُلندی ‘‘ ( بڑائی ) چاہی جہاں لوگ ’’عاجِزی ‘‘ کرتے ہیں تو اللہ عَزَّوَجَلَّنے مجھے ایسی جگہ رُسوا کر دیا جہاں لوگ بُلندی پاتے ہیں ۔ (الزواجرعن اقتراف الکبائر ج۱ص ۱۶۴)
وُہی سَر بَر سرِ محشر بُلندی پائے گاجو سر
یہاں دنیا میں ان کے آستانے پرجُھکا ہوگا
(وسائلِ بخشش ص ۱۸۷)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۷۹) حج کی خواہِش تھی مگر پلّے زَر نہ تھا
حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدُ العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ العَزِیْز نے ایک بار اپنے غلام مُزاحِم سے فرمایا: میری حج کی خواہش ہے ، کیا تمہارے پاس کچھ رقم ہے؟ عَرْ ض کی: دس دینار سے کچھ زائد ہیں ۔ فرمایا: اتنی سی رقم میں حج کیونکر ہوسکتا ہے! کچھ ہی دن گزرے تھے کہ مُزاحِم نے عَرْض کی: یا امیرَ المُؤْمِنین! تیّاری کیجئے، ہمیں بَنُو مَروان کے مال سے 17ہزاردینار (سونے کی اشرفیاں ) مِل گئے ہیں ۔ فرمایا: ان کو بیتُ الْمال میں جمع کروا دو، اگر یہ حلال کے ہیں تو ہم بقَدَرِ ضَرورت لے چکے ہیں اور اگر حرام کے ہیں تو ہمیں نہیں چاہئیں ۔ مُزاحِم کا بیان ہے کہ جب امیرُ المُؤْمِنین نے دیکھا کہ یہ بات مجھ پر گِراں (ناگوار ) گزری ہے تو فرمایا: دیکھو مُزاحِم ! جو