اندرقِبلہ رُخ یا قبلے کو پیٹھ کئے اِستِنجا کرنا حرام ہے، نیز بدنِگاہی، داڑھی مُنڈانا، غیبت، چغلی، جھوٹ ، وعدہ خِلافی، بِلا وجہِ شَرْعی مسلمان کی دِل آزاری، غصّے کا گناہ بھرانفاذ، اِیذادِہ تَلْخ کلامی وغیرہا جَرائم کرتے وَقت اکثر لوگوں کویہ اِحساس تک نہیں ہوتا کہ ہم جہنَّم کا سامان کر رہے ہیں۔ آہ! حَرَمِ مکّۂ پا ک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں اگر صِرْف ایک بار جھوٹ بول لیا، بِلا اجازتِ شَرْعی کسی ایک فرد کی دِل آزاری کرڈالی، ایک مرتبہ غیبت یا چُغلی کا اِرتکِاب کیا تو کسی اور مقام پر گویا ایک ایک لاکھ بار یہ گناہ صادِر ہوئے! شاید وطن میں زندَگی بھر بھی کوئی یہ گناہ لاکھ لاکھ بار نہ کر پائے! اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ وطن میں گناہ کرلیا جائے، یقیناوطن میں گناہ کرنا بھی عذابِ نار کا حقدار بناتا ہے، بے شک آگ کی معمولی سی چنگاری بڑے سے بڑا گودام پھونک دینے کیلئے کافی ہے۔
مَکّۃُ المکرَّمہمیں رِہائش اختیار کرناکیسا؟ :
مَکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں وُہی رہے جسے ظِنِ غالب ہوکہ یہاں کا احترام بجا لاسکے گا ، خود کو گناہوں سے بچا سکے ۔ کروڑوں حنفیوں کے پیشوا سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ جنہوں نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا سُنہری دَور پایا اور تـابِـعِـیَّـت کے شَرَف سے مُشرَّف ہوئے، اُس صَلاح و فَلاح (یعنی نیکی و بھلائی ) کے دَور میں لوگوں کو وہاں بے احتیاطیوں میں مُلَوَّث دیکھا تو حرمِ (مَکّۃُ المکرَّمہ) کی رِہائش مکروہ قرار دی ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہی کے مُقلِّد گیارہویں صَدی ہِجری کے بَہُت بڑے حنفی امام حضرتِ سیِّدُنا مُلّا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی قولِ امام ِاعظم پر تَبصِرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کا حَرَمِ (مَکّۃُ المکرَّمہ) میں سُکونَت (یعنی مستقِل رِہائش) مکروہ کہنا اُن کے اپنے زمانے کے اعتِبار سے ہے، ورنہ آج کل یہاں کے رہنے والوں کا ہم نے جوحال دیکھا ہے کہ حرام وَظائف (یعنی ناجائز تنخواہیں ) ہڑپ کر جاتے ہیں اور اِس عَظَمت والے مقام کا ادب کرنے سے قاصِر رہتے ہیں ، اگرسیّدُناامامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم ان حالات کا مُشاہَدہ فرماتے (یعنی دیکھتے ) تو بِلاشک یہاں ( یعنی حرمِ مکۃُ المکرمہ ) کی سُکونَت یعنی مستقِل رِہائشحرام کہتے۔ (المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط ص ۴۹۰ )
یہ بھی گیارہویں صَدی ہجری یعنی اب سے تقریباً سواتین سو سال پُرانی بات ہے اور اب ۔۔۔۔۔۔؟ مکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا ادب کرنے کے متعلِّق اعلیٰ حضرت امامِ اہلِسنّت ، مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہمُخَرَّجہ جلد10 صَفْحَہ 689 پر فرماتے ہیں : (صاحِبِ مَدْخَل حضرت علّامہ) شیخ عَبْدَرِیْ نے بعض اکابِر اولیاء قُدِّسَتْ اَسْرَارُہُمْ کے بارے میں یہ بھی نَقْل کیا کہ وہ چالیس سال مکّے میں رہے مگر حرمِ مکّہ (جو کہ مِیلوں تک پھیلا ہوا ہے اس) میں پیشاب نہ کرتے اور نہ ہی وہاں لیٹتے تھے۔ پھر فرمایا : ایسے لوگوں کے لیے مُجاوَرَت (یعنی مُستقِل رہائش) مُستَحب ہے، یا انھیں کو اجازت دی جاسکتی ہے۔ (فتاوٰی رضویہ مخرجہ ج۱۰ ص۶۸۹)
مکّے میں ملازَمت و تجارت کرنے والے غور فرمائیں
مکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں جہاں ایک نیکی لاکھ نیکی ہے وہاں ایک گُناہ بھی لاکھ گنا ہے، عام شخص عُموماً گناہوں سے بچ نہیں پاتا اِس وجہ سے بھی اُسے مکّۂ پاک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں مُلازَمت و تجارت وغیرہ کیلئے قِیام نہیں کرنا چاہئے ۔ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ ابنِ عباّس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جو یقینا مکّۃُ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں رہنے کے قابِل تھے پھر