اس وجہ سے کہ یَثرِب کسی بُت یا کسی جابِروسَرکَش بندے کانام تھا۔ امام بخاری (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی) اپنی تاریخ میں ایک حدیث لائے ہیں کہ جو کوئی ’’ایک مرتبہ یَثْرِب ‘‘ کہہ دے تو اسے ( کَفَّارے میں ) ’’دس مرتبہ مدینہ ‘‘ کہنا چاہئے۔ قراٰنِ مجیدمیں جو’’ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ ‘‘ ( یعنی اے یَثْرِب والو! ) آیا ہے۔وہ دَراصل منافِقین کا قول (یعنی کہی ہوئی بات) ہے کہ یَثْرِب کہہ کر وہ مدینۃُالمنوَّرہ کی توہین کا ارادہ رکھتے تھے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ یَثرِب کہنے والا اللہ تَعَالٰی سے اِستِغفار (یعنی توبہ) کرے اور مُعافی مانگے ۔اور بعض نے فرمایا ہے کہمدینۃُالمنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کو جو یَثْرِب کہے اُس کو سزا دینی چاہئے ۔ حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے لوگوں کی زَبان سے اَشْعار میں لفظ ’’ یَثْرِب ‘‘ صادر ہوا ہے اور اللہ تَعَالٰی خوب جانتا ہے اورعَظَمت و شان والے کا علم بالکل پُختہ اورہر طرح سے مکمَّل ہے۔
زندگی کیا ہے! مدینے کے کسی کُوچے میں موت
موت پاک و ہند کے ظلمت کدے کی زندگی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مدینے کی سختیوں پرصبر کرنے والے کیلئے شَفاعت کی بشارت:
شَہَنْشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ باقرینہ ہے: میرا کوئی اُمَّتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا مگر میں قِیامت کے دن اُس کا شفیع (یعنی شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔ (مسلم ص۷۱۶ حدیث۱۳۷۸ )
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان اِس حدیثِ پاک کے تَحت لکھتے ہیں : (یعنی ) شَفاعتِ خُصُوصی۔ حق یہ ہے کہ یہ وعدہ ساری اُمّت کے لیے ہے کہ مدینے میں مرنے والے حُضُور ِانور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کی اِس شَفاعت کے مستحق ہیں ۔ ؎
طیبہ میں مرکے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شَہرِ شَفاعَت نگر کی ہے
(حدائقِ بخشش شریف)
خیال رہے کہ حُضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہجرت سے پہلے مکّۂ معظمہ میں رہنا بہتر تھا اور ہجرت کے بعد فَتْحِ مکّہ سے پہلے مکۂ معظمہ میں رَہنا مسلمان کومَنْعْ ہوگیا ، ہجرت واجِب ہوگئی اور فتحِ مکّہ کے بعد وہاں رَہنا تو جائز ہوا، مگر مدینۂ منوَّرہ میں رہنا افضل قرار پایا کہ یہاں حُضُور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قُرب ہے، اسی لیے زیادہ تر فضائل مدینۂ پاک میں رہنے کے آئے ہیں ۔ (مراٰ ۃ المناجیح ج۴، ص۲۱۰)
مدینہ اس لیے عطارؔ جان و دل سے ہے پیارا
کہ رہتے ہیں مِرے آقا مرے دلبر مدینے میں
(وسائلِ بخشش ص ۴۰۶)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ روح پرورہے: ’’اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضَرور آئے