عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

          حضرتِ سیِّدُنا بِشر حافی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الۡکافی فرماتے ہیں   :  پھر وہ میری نظروں   سے غائب ہوگئے۔ میں   نے حاجیوں   سے پوچھا کہ یہ حاجی صاحِب کون تھے؟  تو کسی نے بتایاکہ یہ حضرتِ ابو عُبَید خَواص رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہتھے۔ اِن کے ’’خَواص  ‘‘ (یعنی خوبیوں   )  میں   سے ایک یہ بھی ہے کہ اِنہوں   نے ستَّربرس تک خوفِ خدا  کے سبب آسمان کی طرف مُنہ نہیں   اُٹھایا۔ (ایضاً ص۹۸)  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔  اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

بے نَوا،  مُفلس و محتاج و گدا کون؟  کہ ’’میں    ‘‘

صاحِبِ جُود و کَرَم وَصف ہے کس کا؟ ’’ تیرا ‘‘

 (ذوقِ نعت)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (۹۰)  بِغیر حج کئے حاجی

          حضرتِ سیِّدُنا رَبِیْع بِن سُلَیْمَان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں   :   ہم دونوں   بھائی ایک قافِلے کے ساتھ حج کے لئے روانہ ہوئے، جب ’’کوفہ ‘‘ پہنچے تو میں   کچھ خریدنے کے لئے بازارکی طرف نکلا،  راہ میں   یہ عجیب منظردیکھا کہ ایک وِیران سی جگہ پر ایک مُردار پڑا تھا اور ایک مَفلوکُ الحال عورَت چاقو سے اُس کے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کرایک ٹوکری میں   رکھ رہی تھی۔ میں   نے خیال کیا کہ یہ مُردار گوشت لئے جا رہی ہے اِس پر خاموش نہیں   رہنا چاہئے ممکن ہے کہ یہ کوئی بَھٹیارن ہو کہ یہی پکا کر لوگوں   کو کھلادے،  میں   چُپکے سے اُس کے پیچھے ہولیا۔

          وہ عورت ایک مکان پر آکررُکی اور دروازہ کھٹکھٹایا،  اندر سے آواز آئی:  کون؟  اُس نے کہا:  کھولو!  میں   ہی بدحال ہوں   ۔ دروازہ کُھلا اور اُس میں   سے چار لڑکیاں   آئیں   جن سے بدحالی اور مصیبت کے آثار ظاہِر ہو رہے تھے۔ اُس عورت نے اندرجاکر وہ ٹوکری اُن لڑکیوں   کے سامنے رکھ دی اور روتے ہوئے کہا :   ’’اِس کو پکالو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرو،  اللہ عَزَّوَجَلَّ     کا اپنے بندوں   پر اِختیار ہے،  لوگوں   کے دِل اُسی کے قبضے میں   ہیں   ۔ ‘‘ وہ لڑکیاں   اُس گوشت کو کاٹ کاٹ کر آگ پر بھُوننے لگیں   ۔ مجھے قلبی رَنج ہوا،  میں   نے باہَر سے آواز دی:  ’’ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی بندی! خدا  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے اِس کو نہ کھانا۔  ‘‘ وہ بولی:  تُو کون ہے؟  میں   نے کہا:  میں   ایک پردیسی آدَمی ہوں   ۔بولی:  اے پردیسی! ہم خود ہی مقدَّر کے قَیدی ہیں   ،  تین سال سے ہمارا کوئی مُعِین ومددگار نہیں   ،  اب تُو ہم سے کیا چاہتا ہے؟  میں   نے کہا:  مَجوسیوں   کے ایک فرقے کے سِوا کسی مَذہب میں   مُردار کا کھانا جائز نہیں   ۔ وہ بولی:  ’’ہم خاندانِ نُبُوَّت کے شریف  (سیِّد) ہیں   ، اِن لڑکیوں   کا باپ بڑا نیک آدَمی تھا وہ اپنے ہی جیسوں   سے اِن کا نکاح کرنا چاہتا تھا، اس کی نوبت نہ آئی اور اُس کا اِنتِقال ہوگیا۔جو تَرکہ (وِرثہ)  اُس نے چھوڑا تھا وہ خَتْم ہوگیا،  ہمیں   معلوم ہے کہ مُردار کھانا جائز نہیں   لیکن حالتِ اِضطِرار میں   جائز ہوجاتا ہے اور ہمارا چار دِن کا فاقہ ہے ۔ ([1] )  خاندانِ سادات کے دردناک حالات سُن کر مجھے رونا آگیا اور میں   انتہائی بے چینی کے ساتھ وہاں   سے واپس ہوا۔

 



[1]      بہارِ شریعت جلد3صفحہ373پر ہے:مسئلہ ۱: ا ضطرار کی حالت میں   یعنی جبکہ جان جانے کا اندیشہ ہے اگر حلال چیز کھانے کے لیے نہیں   ملتی تو حرام چیز یا مُردار یا دوسرے کی چیز کھا کر اپنی جان بچائے اور ان چیزوں   کے کھالینے پر اس صورت میں   مُؤَاخَذہ نہیں   ، بلکہ نہ کھا کر مرجانے میں   مُؤَاخَذہ ہے اگرچِہ پرائی چیز کھانے میں   تاوان دینا ہوگا۔ مسئلہ ۲:پیاس سے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے، تو کسی چیز کو پی کر اپنے کو ہلاکت سے بچانا فرض ہے۔ پانی نہیں   ہے اور شراب موجود ہے اور معلوم ہے کہ اس کے پی لینے میں   جان بچ جائے گی، تو اتنی پی لے جس سے یہ اندیشہ جاتا رہے ۔

Index