عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

(حدائق بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۱۱) میں    سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے پاس آیا ہوں   

           حضرتِ سیِّدُنا داوٗد بِن ابی صالِح رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں   :   دوجہان کے سلطان،  رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے آستانِ عرش نشان پر ایک دِن خلیفہ مَروان حاضِر ہوا، وہاں   اُس نے ایک صاحِب کو قبرِ مُنوَّر پر مُنہ رکھے ہوئے دیکھا تو اُس کی گردن پر ہاتھ رکھ کرکہا:  جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟  وہ ’’ہاں   جانتا ہوں   ،   ‘‘ کہہ کر اُس کی طرف مُتوجِّہ ہوئے تو وہ محبوبِ باری صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے مشہور صَحابی حضرتِ سیِّدُنا ابو اَیُّوب اَنصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُتھے۔ فرمایا:  میں   رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ باعَظَمت میں   حاضِر ہُوا ہوں  کسی پتَّھر کے پاس نہیں   آیا اور میں   نے رسولِ اَکرَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے سُنا ہے کہ دین پر اُس وَقْت نہ رؤو جب کہ اِس کا والی اَہْل (یعنی لائق)  ہو لیکن اُس وَقْت ضَرور رؤو جب کہ اِس کا والی نااَہْل  (یعنی نالائق)  ہو۔  (اَلْمُستَدرَک  ج۵ ص۷۲۰حدیث۸۶۱۸)  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

عُشّاقِ روضہ سجدے میں   سُوئے حَرَم جُھکے

اللہ   جانتا  ہے  کہ   نیَّت  کدھر  کی  ہے

 (حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (۱۲) سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے کھانا بھجوایا

          حضرتِ سیِّدُنا اِمام ابو بکر بِن مُقْرِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں   :  میں   اور حضرتِ سیِّدُنا امام طَبَرانی  قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی   اور حضرتِ سیِّدُنا ابوالشّیخ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہم تینوں   مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں   حاضِر تھے،  دو دِن سے کھانا نہیں   مِلا تھا،  بھوک سے نِڈھال ہو چکے تھے۔ جب عِشا کا وَقت آیا تو میں   نے روضۂ پاک پر حاضِر ہوکر عرض کی:   یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!  ’’اَلْجُوع !  ‘‘ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!  ’’بھوک!  ‘‘ میں   نے  اِس کے سِوا اور کچھ زَبان سے نہ کہا اور لوٹ آیا،  میں   اور ابو ا لشَّیخ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سوگئے اور طَبَرانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی بیٹھے کسی کے آنے کا اِنتِظار کر رہے تھے ،  اِتنے میں   کسی نے ہمارے مکان پر دستک دی،  ہم نے دروازہ کھولا تو ایک عَلَوی صاحِب اپنے دو غُلاموں   کے ہمراہ تشریف لائے ، دونوں   کے پاس کھانے سے بھری ہوئی ایک ایک ٹوکری تھی،  وہ عَلَوی بُزُرگ کہنے لگے:  شاید آپ صاحِبان نے بارگاہِ رسالت میں   بھوک کی شکایت کی ہے کیونکہ میں   خواب میں   جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زِیارت سے شرفیاب ہوا،  سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ حضرات کے بارے میں   فرمارہے تھے:  ’’اِن کو کھانا کِھلاؤ ۔  ‘‘ بَہَر حال اُنہوں   نے ہمارے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور جو کچھ بچ گیا وہ ہمیں   دے دیا اور تشریف لے گئے۔ (جَذبُ القُلوب ص ۲۰۷ ،  وفاء الوفا ج۲ص۱۳۸۰)  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

 

Index