سے مُشَرَّف ہونے کے بعد اس کے ساتھ اس کے قدم بقدم چل پڑا۔ جب صُبْح قریب ہوئی تو میں نے خود کو ایسی وادی میں پایا جس میں بَہُت گھنے دَرَخت اور پانی کے چشمے تھے، میں نے سوچا یہ وادی تو میری وادی’’ شَفْشاوَہ ‘‘ جیسی لگتی ہے۔ جب اچّھی طرح سَپَیدئہ سَحَر (یعنی فجر کا اُجالا) نُمُودار ہوا اور میں نے غور سے دیکھا تو واقعی وہ وادی ’’شَفْشاوَہ ‘‘ ہی تھی۔ میں خوشی خوشی اپنے اَہل و عِیال کے پاس پہنچا اور اپنے مکان پہنچنے کی داستانِ کرامت نشان سنا کر سب کو وَرْطۂ حیرت میں ڈال دیا! لوگوں نے میرے قافِلے کیمُتَعلِّق دریافْت کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ وہ تو مجھے مُفلِس و نادار سمجھ کرمدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں اکیلا چھوڑ کر سُوئے وطن روانہ ہو گئے تھے۔ کچھ لوگوں نے میری بات کو دُرُسْت تسلیم کیا اور بعض نے مجھے جھٹلایا، چند ماہ گزرے تو میر۱ قافِلہ آ پہنچا اور لوگ حقیقت ِ حال سے واقِف ہوئے اور اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ! سب نے مجھے سچّا مان لیا۔ (شواہدُ الحق ص۲۲۹) (چونکہ پہلے زمانے میں اُونٹوں اور خچّر وں وغیرہ پر سفر ہوا کرتا تھا ، غالباً اِسی وجہ سے قافِلہ کچھ مہینوں کے بعد پہنچا۔) اللہِ عَزّوَجَلَّکی اُن پر رَحْمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہِلتا
تم چاہو تو ہوجائے ابھی کوہِ مِحن پھول
(حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۴۳) تین روپیہ مدینہ ۔۔۔۔تین روپیہ مُلتان
یہ حکایت کسی نے مجھے ( سگِ مدینہ عفی عنہ کو) کافی عرصہ قبل سنائی تھی اپنی یادداشت کے مطابِق اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی سعی کرتا ہوں : حاجیوں کا ایک قافِلہ مدینۃ ُالاولیاء ملتان (پاکستان) سے مدینۃُ الْمصطَفٰے زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً چلا، اُس میں ایک مدینے کا دیوانہ بھی شامل تھا ۔ حجِ بیتُ اللہ اور حاضِریِ مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے فراغت کے بعد جب سب ملتان شریف پہنچ گئے۔ ایک حاجی نے دیوانے کو چھیڑتے ہوئے کہا: تجھے بارگاہِ رسالت سے کوئی سند بھی عطا ہوئی یا نہیں ؟ وہ بولا : نہیں ۔ اُس حاجی نے اپنے ہی ہاتھوں لکھی ہوئی ایک چِٹّھی دیوانے کو دکھاتے ہوئے کہا: دیکھ! مجھے روضۂ انور پر یہ سنَد ملی ہے! چِٹھی میں لکھا تھا: ’’ تیری مغفِرت کر دی گئی ہے۔ ‘‘ دیوانہ یہ پڑھ کر بے قرار ہو گیا، اُس نے رونا دھونا مَچا دیا اور یہ کہتے ہوئے چل پڑا: میں بھی اپنے پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے مغفِرت کی سند لوں گا ‘‘ گرتا پڑتا جب روڈ پر آیا تو ایک بس کھڑی تھی اور کنڈکٹر آواز لگارہا تھا: ’’ تین روپیہ مدینہ ! تین روپیہ مدینہ! ! ‘‘ دیوانہ لپک کر بس میں سُوار ہو گیا، تین روپے ادا کئے اور بس چل پڑی۔ کچھ ہی دیر بعد کنڈکٹرنے صدا لگائی: مدینہ آ گیا! ! مدینہ آ گیا! ’’دیوانہ بس سے اُترگیا ، سُبْحٰنَ اللہِ! وہ سچ مُچ مدینے ہی میں تھا، اور اُس کی نگاہوں کے سامنے سبز سبز گنبد اپنے جلوے لٹا رہا تھا! اُس نے بے تابی کے ساتھ قدم آگے بڑھائے، مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممیں داخِل ہوا اور سنہری جالیوں کے روبرو حاضِر ہو گیا ، اس کے سینے میں تھما ہوا اشکوں کا طوفان آنکھوں کے راستے اُمنڈنے لگا، بعدِ عرضِ سلام اُ س نے برستی ہوئی آنکھوں سے مغفرت کی سند کی التجا ئے شوق پیش کر دی۔ ناگاہ ایک پرچہ اُس کے سینے پر گرا، بے قرار ہو کر اُس نے پڑھا تو لکھا تھا: ’’تیری مغفِرت کر دی گئی ہے۔ ‘‘ اُس نے وہ کاغذ احتیاط