رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ اُس جوان کے اوپر ایک رُقْعَہ گرا، اُس میں لکھا تھا: ’’یہ خط خدائے عزیز وغَفّار کی جانب سے اِس کے شکرگزار ومُخلِص بندے کیلئے ہے، واپَس جاتیرے اگلے پچھلے گناہ مُعاف ہیں۔ ‘‘ (روض الریاحین ص ۱۰۸ملخصا) اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
مَحَبَّت میں اپنی گُما یا الٰہی
نہ پاؤں میں اپنا پتا یاالٰہی
(وسائلِ بخشش ص ۷۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنامالِک بن دِینار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ ِالغَفَّارفرماتے ہیں : ایک عابد کہتے ہیں : میں مُتَواتِر کئی سال تک حج کی سَعادتِ عُظمٰی سے سرفراز ہوتارہا اور ہر سال ایک دَروَیش کو کعبۂ معظمہ کا دروازہ پکڑے دیکھا۔ جب وہ ’’لَبَّیْک ط اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکط ‘‘ کہتا تو غیب سے آواز سنائی دیتی: ’’لَالَبَّیْکَ ‘‘ ۔ میں نے چودھویں سال اُس شخص سے پوچھا: اے دَروَیش تو بَہرا تو نہیں ؟ اُس نے جواب دیا : ’’ میں سب کچھ سُن رہا ہوں ۔ ‘‘ میں نے کہا : پھر یہ تکلیف کیوں اُٹھاتا ہے؟ اُس نے کہا : یا شیخ ! میں حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ اگر بجائے 14 سال کے چودہ ہزار سال میری عمر ہو اور بجائے سال بھر کے ، ہر روز ہزار بار یہ جواب ’’لا لَبَّیکَ ‘‘ سُنائی دے تو پھر بھی اِس دروازے سے سر نہ اٹھاؤں گا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ابھی ہم مصروفِ گُفتگو تھے کہ اچانک آسمان سے ایک کاغذ اُس کے سینے پر گرا، اُس نے وہ کاغذ میری طرف بڑھایا، میں نے پڑھا تو اُس میں لکھا تھا: ’’اے مالِک بن دِینار! تُو میرے بندے کو مجھ سے جدا کرتا ہے کہ میں نے اِس کے کئی سال کے حج قَبول نہیں کیے، ایسا نہیں بلکہ اِس مدّت میں آنے والے تمام حاجیوں کے حج بھی اِسی کی پکار کی بَرَکت سے قَبول کیے ہیں تاکہ کوئی میری بارگاہ سے مَحروم نہ جائے۔ ‘‘
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حکایت سے ہمیں یہ بھی مَدَنی پھول ملے کہ قَبولیتِ دُعا میں خواہ کتنی ہی تاخیر ہو دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہئے، ہم تاخیر کی مَصلحتیں نہیں جانتے ، یقینا قَبولیّتِ دعا میں تاخیر بلکہ سِرے سے دُعا کی قَبولیّت کا اظہار نہ ہونا بھی ہمارے حق میں مُفید ہوتا ہے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے والدِ گرامی رئیسُ الْمُتَکَلِّمِین حضرتِ مولانا نقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنّانکے فرمان کا خلاصہ ہے: حکمتِ الٰہی کہ کبھی تُو براہِ نادانی کوئی چیز طلب کرتا ہے اور (وہ عَزَّ وَجَلَّ) براہِ مِہربانی تیری دُعاقَبول نہیں فرماتا کیوں کہ تُو جو مانگ رہا ہوتا ہے وہ اگر عطا کردیا جائے تَو تجھے نقصان پہنچے ۔ مَثَلاً تُودولت مانگے اور تجھے مل جائے تو ایمان خطرے میں پڑ جائے ، یا تو صحّت مانگے اور اُس کاملنا تیری آخِرت کیلئے نقصان دِہ ہو اِس لئے وہ تیری دعا قَبول نہیں فرماتا ۔ پارہ 2سُوْرَۃُالْبَقَرہ آیت نمبر 216 میں ارشاد ہوتا ہے :
عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ-
ترجَمۂ کنزالایمان: قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بُری ہو ۔