عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

اَنوار سے باہَر تشریف لے آئے ہیں   ؟ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے وِصالِ ظاہِری کے بعد مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں   اُس دن سے زیادہ کبھی گِریہ وزاری نہیں   ہوئی ۔اس واقِعے کے بعد عاشقِ بے مثال حضرتِ سیِّدُنا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تادَمِ حیات سال میں   ایک مرتبہ مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً حاضِر ہوتے اور اذان دیا کرتے تھے۔ 

       (تاریخ دِمَشق ج۷ص۱۳۷ وفتاوٰی رضویہ مُخرجہ ج۱۰ ص۷۲۰مُلَخّصًا)

جاہ وجلال دو نہ ہی مال ومَنال دو

سوزِ بلال بس مری جھولی میں   ڈال دو

 (وسائل بخشش ص۲۹۰)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۴۱) غَرْناطَہ کا مایوسُ العلاج مریض

          ابو محمداِ شْبِیلی اپنا ایک واقِعہ بیان فرماتے ہیں   کہ غَرْناطَہ میں   ایک ایسے بیمار کے ہاں   ٹھہرے جو طبیبوں   کی طرف سے لا علاج قرار دیاجا چکا تھا۔ اُس بیمار کے ایک خادِم ابنِ ابی خِصال نے سرکارِ عالم مدار،  مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے دربار ِگوہَر بار میں   عریضہ لکھا جس میں   اس نے اپنے آقا کی بیماری کا ذِکْرکیا تھا اور درخواست کی تھی کہ اسے شِفا نصیب ہو۔ ابو محمد فرماتے ہیں   :  وہ عریضہ لئے ایک زائرِ مدینہ غرناطہ سے مدینۂ منوَّرہ  زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً حاضِر ہوا،  اُس نے جُوں   ہی یہ خط دربارِ رِسالت میں   پڑھا بیمار کو غَرْناطَہ میں   شِفا مل گئی۔  (وفاء الوفا، ج۲، ص۱۳۸۷، ملخصا)

فَقَط اَمراضِ جسمانی کی ہی کرتا نہیں   فریاد

گناہوں   کے مرض سے بھی شِفا دو یارسولَ اللہ

 (وسائل بخشش ص۵۵۱)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۴۲) زم زم کا باکمال ساقی

        شیخ ابو ابراہیم وَرّاد  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَادفرماتے ہیں   :   میں   نے ایک مرتبہ حج وزیارت کی سعادت پائی،  زادِ قافِلہ کی قِلّت  (یعنی اَخراجات کی کمی)  کے سبب قافلے والے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں   مجھے اکیلا چھوڑ کر روانہ ہو گئے۔ میں   نے بارگاہِ رسالت میں   حاضِر ہو کر فریاد کی:   ’’ یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!  میرے رُفَقا مجھے تنہا چھوڑ کر جا چکے ہیں  ۔‘‘ جب سویا توخواب میں   جنابِ رسالت مآب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت سے شَرَفْیاب ہوا، آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :  ’’ مکّہ شریف جاؤ،  وہاں   ایک شخص زمزم کے کُنویں   پر پانی کھینچ کھینچ کر لوگوں   کوپِلا رہا ہوگا،  اُس سے کہنا ،  رسولُ اللہ  (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)  نے حکم دیا ہے کہ مجھے میرے گھر تک پہنچادو۔ ‘‘ میں   حسبِ ارشاد مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پہنچااور زمزم شریف کے کنوئیں   پر گیا، جہاں   ایک شخص پانی کھینچ رہا تھا، اِس سے پہلے کہ میں   کچھ کہوں   ، وہ کہنے لگا:   ’’ٹھہرو!  میں   ذرا لوگوں   کو پانی پلا لوں   ۔ ‘‘ جب وہ فارِغ ہوا تو رات ہوچکی تھی ۔ اُس نے کہا :  ’’ بیتُ اللہ شریف کا طواف کرلو پھر میرے ساتھ مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے بالائی (یعنی اونچا ئی والے)   حصّے کی طرف چلو ۔ ‘‘ چُنانچِہ میں   طواف

Index