عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

ہِند میں   موجودایک گھاس کاٹنے والے بوڑھے صاحِب کو 9 ذوالحجۃُ الْحرام کے روز خیال آیا کہ آج یومِ عَرَفہ ہے ، خوش نصیب حُجّاجِ کرام میدانِ عَرَفات میں   جمع ہوں   گے یہ خیال آتے ہی بوڑھے صاحِب نے ایک آہِ سرد دلِ پُردرد سے کھینچ کر نہایت حسرت سے کہا :  اے کاش ! میں   بھی حج سے مُشرف ہوا ہوتا ۔ قُدْوَۃُ الکُبَرا، محبوبِ یَزدانی ، حضرتِ سیِّدُنا شیخ سیِّد اشرف جہانگیر سَمنانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیقریب ہی تشریف فرما تھے ، آپ نے اُس کی حسرت بھری آواز سنی تو فرمایا :  ’’اِدھر آئیے!  ‘‘ بوڑھے صاحِب قریب آئے، اب زَبان سے نہیں   صِرْف دستِ مبارَک کے اشارے سے فرمایا :  ’’جائیے!  ‘‘ اشارہ ہوتے ہی اس بوڑھے صاحِب نے ہاتھوں   ہاتھ اپنے آپ کو مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی مسجدُالحرام میں   عَین کعبے کے سامنے کھڑاپایا ! انہوں   نے جھوم جھوم کر طواف کیا ،  عَرَفات پہنچے اور دیگر مناسکِ حج اداکئے ۔ جب ایّامِ حج پورے ہو گئے توبوڑھے  حاجی صاحب کے دل میں   خیال آیا کہ اب اپنے وطن کس طرح پہنچوں   گا !  اِس خیال کا آنا تھا کہ اُنہوں   نے حضرتِ سیِّدُنا شیخ جہانگیر سَمنانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کو اپنے سامنے کھڑا پایا ، فرمانے لگے :   ’’جائیے!  ‘‘ بوڑھے حاجی صاحِب نے جوں   ہی سر اُٹھایا تو ہِندمیں   اپنے گھر کے اندر تھے ۔ (لطائفِ اشرفی حصّہ ۳ص ۶۰۲۔۶۰۳بتصرُّف)  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔   اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

کیوں   کر نہ میرے کام بنیں   غیب سے حسن ؔ

بندہ بھی ہوں   تو کیسے بڑے کارسازکا

 (ذوقِ نعت)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۶۱) انوکھا کوڑھی

          حضرتِ سیِّدُنا ابو الحُسین دَرَّاج علیہ رَحمَۃُ اللہ الوہاب فرماتے ہیں   :   ایک سال میں   اکیلا حج پر روانہ ہوا اورتیزی سے منزِلیں   طے کرتا ہوا ’’قادِسِیہ ‘‘ جاپہنچا ۔ وہاں   کسی مسجد میں   گیا تومیری نظر ایک مَجْذُوم یعنی کوڑھی شخص پر پڑ ی ۔ اُس نے مجھے سلام کیا اور کہا:  ’’ اے ابو الْحُسین!  کیا حج کا ارادہ ہے ؟  ‘‘ اسے دیکھ کر مجھے بَہُت زیادہ کراہَت (یعنی گِھن)  محسوس ہو رہی تھی لہٰذا میں   نے بڑی بے رُخی سے کہا:  ’’ ہاں   ۔  ‘‘ وہ کہنے لگا:  ’’ پھر مجھے بھی ساتھ لے چلئے۔ ‘‘ میں   نے دل میں   کہا:  ’’یہ ایک نئی مصیبت آن پڑی ! میں   تو تندُرُست لوگو ں   کی رَفاقت  (یعنی  ہمراہی) سے بھی بھاگتا ہوں   اور ایک کوڑھی مجھے اپنے ساتھ رکھنے کی فرمائش کررہا ہے !  ‘‘ میں   نے صاف انکار کر دیا ۔ وہ لَجاجت سے بولا:   ’’آپ کی بڑی مِہربانی ہوگی،  مجھے ساتھ لے لیجئے۔ ‘‘ مگر میں   نے قسم کھالی:  ’’خدا  عَزَّ وَجَلَّکی قسم !  میں   ہرگز تمھیں   اپنا رفیق  (ساتھی) نہ بناؤں   گا۔ ‘‘ اُس نے کہا:  ’’ ابو الحُسین!  اللہ عَزَّ وَجَلَّکمزوروں   کو ایسا نواز تا ہے کہ طاقتور بھی حیران رہ جاتے ہیں   !  ‘‘ میں   نے کہا:  ’’ تم ٹھیک کہتے ہو مگر میں   تمہیں   ساتھ نہیں   رکھ سکتا۔ ‘‘ عَصْر کی نَماز پڑھ کر میں   نے دوبارہ سفر شُروع کیا اور صُبْح کے وقت ایک بستی میں   پہنچا تو حیرت انگیز طور پر اُسی کوڑھی شخص سے ملاقات ہوئی،  اُس نے مجھے دیکھتے ہی سلام کیا اوربولا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کمزوروں   کو ایسا نواز تا ہے کہ طاقتور بھی حیران رہ جاتے ہیں   ! اس کی یہ بات سن کر مجھے اس کے بارے میں   عجیب وغریب خیالات آنے لگے ۔  بَہَرحال میں   وہاں   سے روانہ ہوا،  جب مقامِ ’’قَرْعَاء ‘‘ پَہُنچ کر نَماز پڑھنے مسجِد میں   داخِل ہواتو اُسے بھی وہاں   بیٹھے دیکھا ،  اُس نے کہا:  ’’ اے ابو الحسین !  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کمزوروں   کو ایسا نواز تا ہے کہ طاقتور بھی حیران

Index