یہ کیوں کہوں مجھ کو یہ عطا ہو یہ عطا ہو
وہ دو کہ ہمیشہ مِرے گھر بھر کا بھلا ہو
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۷۳) کس کے دَر پر میں جاؤں گامولیٰ!
دُعا قَبول ہو یا نہ ہو مانگنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے اپنے پَرْوَرْدگار عَزَّ وَجَلَّ کو پکارتے رہنا بھی بَہُت بڑی سعادت اور حقیقت میں عِبادت ہے۔ اس ضِمْن میں مزید ایک حِکایت مُلاحظہ ہو: ایک ضعیفُ الْعُمربُزُرْگ ایک نوجوان کے ساتھ حج کرنے گئے ، جُوں ہی اِحرام باندھ کر کہا: لبَّیک ( یعنی میں تیری بارگاہ میں حاضِر ہوں ) غیب سے آواز آئی : لالبَّیک ( یعنی تیری حاضِری قَبول نہیں ) نوجوان حاجی نے ان سے کہا: کیا آپ نے یہ جواب سنا؟ بوڑھے حاجی نے فرمایا: جی ہاں ، میں تو70 سال سے یہ جواب سُن رہا ہوں ! میں ہر بار عَرْض کرتا ہوں لبَّیک اور جواب آتا ہے لالبَّیک : نوجوان نے کہا: پھر آپ کیوں ، آتے ، سفر کی تکالیف اُٹھاتے اور خود کو تھکاتے ہیں ؟ بوڑھے حاجی صاحِب رو کر کہنے لگے: پھر میں کس کے دروازے پر جاؤں ؟ مجھے خواہ رَدکیا جائے یا قَبول، میں نے تو بس یہیں آنا ہے، اس دَر کے سوا میری کہیں پناہ نہیں ۔ غیب سے آواز آئی: ’’جاؤ! تمہاری ساری حاضِریاں قَبول ہو گئیں ۔ ‘‘
(تفسیر روح البیان ج۱۰ ص۱۷۶)
وہ سُنیں یانہ سنیں اُن کی بَہَرحال خوشی
دردِ دل ہم تو کہے جائیں گے اِنْ شَاء اللہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۷۴) حَجّاج بن یوسف اور ایک اَعرابی
حَجّاج بن یوسُف نے سخت گرمیوں کے موسِم میں دورانِ سفرِ حج مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًسے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًجاتے ہوئے راہ میں پڑاؤ کیا، ناشتے کے وَقْت خادِم سے کہا : کسی مہمان کو ڈھونڈ لاؤ ! وہ گیا اور اُس نے پہاڑ کی طرف ایک اَعرابی ( یعنی دِیہاتی ، بَدُّو) کو سویا ہوا دیکھ کر پاؤں سے ٹھوکر مار کر جگایا اور کہا : تم کو گورنر حَجّاج بن یوسف نے طلب فرمایا ہے۔ وہ اُٹھ کر حَجّاج کے پاس آیا۔ حَجّاج نے کہا : ’’ میرے ساتھ کھانا کھالو۔ ‘‘ اُس نے کہا : میں آپ سے بہتر کریم کی دعوت قَبول کرچکا ہوں ۔ ‘‘ پوچھا : ’’ وہ کون ہے؟ ‘‘ جواب دیا : ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّکہ اُس نے مجھے روزہ رکھنے کی دعوت دی اور میں نے رکھ لیا۔ حَجّاج بولا : ایسی شدید گرمی میں روزہ ؟ جواب دیا : ہاں قِیامت کی سخت ترین گرمی سے بچنے کے لیے ۔ حَجّاج نے کہا : اچھّا تواب کل روزہ نہ رکھنا اور میرے ساتھ کھانا کھالینا۔ کہا : کیا آپ کل تک میرے جینے کی ضَمانت دے سکتے ہیں ؟ بولا : ’’یہ تو میرے بس میں نہیں ۔ کہا : تَعَجُّب ہے کہ آپ آخِرت کے مُعامَلے میں بے بس ہونے کے باوُجُود دُنیا طَلَبی میں لگے ہوئے ہیں ! َجّاج نے کہا : یہ کھانا نہایت عمدہ ہے۔ جواب دیا : اِسے نہ آپ نے عمدہ کیا ہے نہ ہی طَبّاخ (یعنی باوَرچی) نے، بلکہ اِسے صحّت و عافیّت بخش ہونے کی خوبی نے عمدہ کیا ہے یعنی جو مریض ہو اُس کو لذّت نہیں آتی مگر صحّت مند کو یہ خوب بھاتا ہے اور صحّت و عافیت دینے والی ذات ربِّ کائناتعَزَّ وَجَلَّکی ہے، لہٰذا اُس قادِرِ مُطْلَق جَلَّ جَلالُہٗ کی دعوت پر روزہ رکھنا چاہیے۔ (رفیق المناسِک ص ۲۱۲)