مشہور صَحابی حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہ بن زُبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک رات چند عورَتوں کوطوافِ کعبہ کرتادیکھ کرمیں وَرطۂ حیرت میں ڈوب گیا! (کیونکہ وہ عام عورَتوں کی طرح نہیں تھیں ) جب وہ فارِغ ہوئیں تو باہَر نکل گئیں ۔میں اُن کے تَعاقُب میں روانہ ہوا، وہ چلتی رہیں یہاں تک کہ وہ ایک ویران جنگل میں داخِل ہوگئیں ، وہاں کچھ مُعمر (مُ۔عَمْ۔مَر۔یعنی بڑی عمر کے) افراد بیٹھے تھے، اُنہوں نے مجھ سے پوچھا : ’’اے ابنِ زُبیر! آپ یہاں کیسے آگئے؟ ‘‘ میں نے جواب دینے کے بجائے اُن سے سُوال کردیا: ’’آپ لوگ کون ہیں ؟ ‘‘ اُنہوں نے کہا : ’’ہم جِنّات ہیں ۔ ‘‘ میں نے اپنے تَعاقُب اور اِس کاسبب بیان کیا ، اُنہوں نے کہا: ’’ یہ ہماری عورَتیں (یعنی جنِّیاں ) ہیں ۔ اے ابنِ زُبیر ! آپ کھانے میں کیا پسند فرما ئیں گے ؟ ‘‘ میں نے کہا : ’’تازہ پکّی کَھجوریں ۔ ‘‘ حالانکہ اُس وَقت مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں تازہ کَھجور کا کہیں نام ونشان نہ تھا۔ لیکن وہ میرے پاس پکّی تازہ کَھجوریں لے آئے۔ جب میں کھاچکا توکہا : ’’جو بچ گئی ہیں اُنہیں ساتھ لے جایئے۔ ‘‘ حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ ابنِ زُبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے وہ بچی ہوئی کَھجوریں اُٹھائیں اورگھر واپَس آگیا ۔ (لقط المرجان فی احکام الجان ص ۲۴۷) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
غمِ حیات ابھی راحتوں میں ڈھل جائیں
تری عطا کا اشارہ جو ہو گیا یاربّ
(وسائلِ بخشش ص۹۶)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنا عَطابن اَبی رَباح رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عَمْرْو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا مسجدِ حرام میں موجود تھے کہ ایک سفید اورسیاہ رنگ کا چمکیلا سانپ آیا ، اس نے بیتُ اللہ شریف کا طواف کیا پھر وہ ’’مقامِ ابراہیم ‘‘ کے پاس آیا اورگویا نَماز ادا کر رہاتھا تو حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہ بن عَمْرْو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اُس کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اورفرمایا : ’’اے سانپ! شاید تم نے عُمرے کے ارکان پورے کرلئے ہیں اوراب میں تمہارے بارے میں یہاں کے ناسمجھ لوگوں سے ڈرتاہوں (یعنی کہیں وہ تمہیں اصلی سانپ سمجھ کر مارنہ ڈالیں لہٰذا تم یہاں سے جلدی چلے جاؤ) ۔ ‘‘ چُنانچِہ وہ گھوما اور آسمان کی طرف اُڑگیا۔ (ایضاً ص۱۰۱) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
کردے حج کا شَرَف عطا یاربّ سبز گنبد بھی دے دِکھا یاربّ
یہ تِری ہی تو ہے عنایت کہ مجھ کو مکّے بُلا لیا یاربّ
(وسائلِ بخشش ص ۸۷)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۱۷) سانپ نُما جنّ نے حَجَرِاَسْوَد چُوما
حضرتِ سیِّدُنا ابو زُبیر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہ بن صَفوان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان بیتُ اللہ شریف کے قریب بیٹھے تھے کہ ’’عراقی دروازے ‘‘ سے اچانک ایک سانپ داخِل ہوا اورخانۂ کعبہ کا طواف کیاپھر حَجَرِ اَسود کے پاس