مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رَحْمتوں بھرے آٹھ سُتونوں کو خُصُوصی فضیلت حاصل ہے، اِن پر اِن کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں اور رَوضَۃُ الجَنّۃ (یعنی جنّت کی کیاری) کے اندر 6 سُتُونوں کی زیارت ممکن ہے، دو سُتون چُونکہ اب حُجرۂ مُطہَّرہ کے اَندر ہیں لہٰذا اُن کی زِیارت مشکل ہے۔ سُتون کو عَرَبی میں ’’اُسطُوانَہ ‘‘ کہتے ہیں ۔ آٹھوں اُسطُوانات کی تفصیل یہ ہے:
یہ سُتونِ رحمت سیدھی جانِب محرابِ نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بالکل مِلا ہوا ہے۔ ’’مِنبر منوَّر ‘‘ بننے سے پہلے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کَھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر خُطبہ اِرشاد فرماتے تھے۔ جب مِنبرِ اَطہر بنایا گیا اور سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اس پر تشریف فرما ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا تو وہ تَناآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے فِراق (یعنی جُدائی) میں پھٹ گیا اورچیخیں مار کر رونے اور گابَھن اُونٹنی کی طرح چلّانے لگا ، یہ حال دیکھ کر تمام حاضِرین بھی بے اختیار رونے لگے۔ سرکارِبحرو بر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے مِنبرِ منوَّر سے اُتر کر اُس کھجور کے تَنے پر دستِ انور پھیر کر فرمایا: ’’تُو چاہے توتجھے تیری جگہ چھوڑ دوں جس حالت میں تو پہلے تھا، اگر تو چاہے تو جنَّت میں لگا دوں تاکہ جنّتی تیرا پھل کھاتے رہیں ، ‘‘ لمحے بھر کے بعدسرکارِنامدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی طرف مُتوجِّہ ہوکر فرمایا: ’’اِس نے جنَّت اختیار کی ۔ ‘‘ اِسی رونے کی وجہ سے اُس تَنے کانام’’ حَنّانہ ‘‘ پڑ گیا۔ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی جب یہ واقِعہ سنتے تو خوب روتے اور فرماتے : اے لوگو! جب کھجورکا ایک بے جان تَنا فراقِ رسول میں روسکتا ہے تو کیا تم نہیں رو سکتے۔؟
(وفاء الوفاء ج۱ص۳۸۸، ۳۸۹۔۳۹۰، ۴۳۹)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۲) اُسطُوانۂ عائِشہ
یہ سُتونِ رحمت رو ضۂ انور سے تیسرے نمبر پر ہے اورمِنبرِمُنوَّر سے بھی تیسرے نمبر پر۔ رَحمتِ اَنام صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اور کئی اَکابِر صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے یہاں بارہا نَماز پڑھی ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہاں اکثر تشریف رکھا کرتے تھے۔ (وفاء الوفاء ج۱ص۴۴۱)
اگر لوگوں کو پتا لگ جائے تو قُرعہ اندازی کریں
اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے ایک مرتبہ سرکارِ عالی وقار ، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا ارشادِ خوشگوار بیان کیا: ’’مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں ایک جگہ بَہُت زیادہ با بَرَکت ہے، اگرلوگوں کو عِلم ہو جائے تو انہیں وہاں نَماز پڑھنے کے لیے ہُجُوم کی وجہ سے قُرعہ ڈالنا پڑے! ‘‘ صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے سیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے وہ جگہ دریافت کرنا چاہی مگراُنہوں نے بتانے سے پہلو تہی کی، بعد ازاں سیِّدُنا عبدُاللہ بن زُبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اِصرار پر اُنہوں نے جگہ کی نشاندہی فرما دی جس پر موصوف فوراً وہاں پہنچے اورنَفل پڑھنے میں