(۱۱۱) غزالیِ زَماں اورمفتی احمد یار خاں پر سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا احساں
ایک مرتبہ حضرت شیخ علاؤ الدین اَلْبِکْرِی الْمَدَنی علیہ رَحمَۃُ اللہ الغنی کے والدِ محترم حضرت شیخ علی حُسین مَدَنی علیہ رَحمَۃُ اللہ الغنیکے ہاں مدینۂ طَیِّبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً
میں محفِلِ میلادمُنعَقِد ہوئی جو کہ پُر ذَوق محفِل تھی اور انوارِ نبوی خوب چمکے۔ محفِل کے اختِتام پر میرِ محفِل نے تَبَرُّ کاًجلیبی تقسیم کی اور فرمایا: آج رات میلاد کی جَلیبی کھانے والے کو تاجدارِ رسالت، شَہَنْشاہِ نُبُوّت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ زیارت ہوگی، کل عَلی الصُبح بعد نمازِ فجر مسجدُ النَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں ہر ایک اپنی کیفیتِ دیدار سنائے۔حاجی غلام حسین مَدَنی مرحوم کابیان ہے : اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ! میں نے بھی وہ جَلیبی کھائی تھی، مجھے سرکارِ نامدار ، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا دیدار نصیب ہوا، میں نے اِس حال میں حُضُور ِ پاک ، صاحِبِ لولاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی زیارت کی کہ دا ہنی جانب بغل میں (غزالیِ زماں رازیِ دَوراں ) حضرتِ قبلہ سیِّد احمد سعید کاظمی شاہ صاحِب (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) ہیں اور دوسرے ہاتھ میں ( مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ) مفتی احمد یار خان (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان) کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے۔ (انوارِقطبِ مدینہ ص۵۳ ) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
دیدار کی بھیک کب بٹے گی
منگتا ہے امّیدوار آقا
(ذوق نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۱۲) علاّمہ کاظمی صاحب اور خارِ مدینہ
غزالیِ زَماں حضرتِ علّامہ سیِّد احمد سعید کاظِمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی پہلی حاضِری کے موقع پر پاؤں میں ایک خار (یعنی کانٹا ) چُبھ گیا، جس سے سخت تکلیف ہو رہی تھی، نکالنے لگا تو اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِسنّت ، مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی خارِ مدینہ سے مَحَبَّت یاد آگئی تو میں وَہیں رُک گیا اور پاؤں سے کانٹا نہ نکالا کئی دن کے بعد خود بخود دَرْد رُک گیا۔ ‘‘ (ایضاً ) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
اُن کی حَرَم کے خار کشیدہ ہیں کس لئے آنکھوں میں آئیں سر پہ رہیں دل میں گھر کریں (حدائق بخشش شریف)
خارِ صَحْرائے نبی! پاؤں سے کیا کام تجھے آ مِری جان مِرے دل میں ہے رَستہ تیرا (ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۱۳) بعدِ وصال اعلٰی حضرت کی دربارِ مصطَفٰے میں حاضِری
قُطبِ مدینہ حضرتِ علّامہ مولانا ضِیاء الدّین احمد قادِری مَدَنیعَلَیْہِ رَحمَۃُاللہ الغَنِی (سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی وفات کے بعد کا واقِعہ بیان کرتے ہوئے ) فرماتے ہیں : ایک مرتبہ مُوَاجَہَہ شریف میں حاضِری دینے کے لیے مسجدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی