غمِ حیات ابھی راحتوں میں ڈھل جائیں
تری عطا کا اشارہ جو ہو گیا یاربّ
(وسائلِ بخشش ص ۹۶)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۶۹) آقا کے نام کا حج کرنے والے پر کرم بالائے کرم
حضرتِ سیِّدُنا علی بن مُوَفَّق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الحَقنے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف سے کئی حج کئے ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : مجھے خواب میں مکّے مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دیدار ہوا، سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِسْتفِسار فرمایا : ’’اے ابنِ مُوَفَّق! کیاتم نے میری طرف سے حج کئے؟ ‘‘ میں نے عَرْض کی: جی ہاں ۔ فرمایا: ’’ تم نے میری طرف سے تَلْبِیَہ کہا؟ ‘‘ میں نے عرض کی: جی ہاں ۔ فرمایا: ’’ میں قِیامت کے دن تمہیں ان کا بدلہ دُوں گا اور میں محشر میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں جنَّت میں داخِل کروں گا جبکہ لوگ ابھی حساب کی سختی میں ہوں گے۔ ‘‘ (لبابُ الاحیاء ص۸۳) اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
شکریہ کیونکر ادا ہو آپ کا یامصطفٰے
کہ پڑوسی خُلد میں اپنا بنایا شکریہ
(وسائلِ بخشش ص ۳۰۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُناعلی بن مُوفَّق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الحَق کا یہ ساٹھواں حج تھا، حرمِ محترم میں حاضِر تھے ان کے ذِہْن میں یکایک خیال آیا کہ کب تک حج کے لیے ہر سال وِیرانوں اور جنگلوں کی خاک چھانو گے! اتنے میں نیند کاغَلَبہ ہوا، سو گئے اور غیبی آواز سنی: ’’اُس کے لئے خوشخبری ہے جِسے اُس کے مولا عَزَّ وَجَلَّنے دوست رکھا اور اپنے گھر بُلا کر بُلندرُتبے سے سرفراز فرمایا۔ ‘‘ (روض الریاحین ص ۱۰۷ ملخّصا ) اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
ضُعْف مانا مگر یہ ظالم دل
اُن کے رستے میں تَو تھکا نہ کرے!
(حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۷۱) رخصت کی اجازت کے منتظر جوان کو بِشارت
حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّون مِصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے کعبۂ مُشَرَّفہ کے پاس ایک جوان کو دیکھا جو مسلسل نَماز پڑھے جا رہا تھااور رُکنے کا نام ہی نہ لیتاتھا۔ موقع ملنے پر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اُس سے فرمایا: کیا بات ہے کہ واپَس جانے کے بجائے مسلسل نَمازیں پڑھے جارہے ہو! کہنے لگا: اپنی مرضی سے کیسے جاؤں ! رخصت کی اجازت کا انتِظار ہے ! حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّون مِصری عَلَیْہِ