عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

          حضرتِ سیِّدُنا شَقیق بَلخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں   کہ میں   نے مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے راستے میں   ایک اَپاہَج حاجی کو دیکھا جو گھِسَٹ کر چل رہا تھا،  میں   نے اُس سے پوچھا:  تم کہاں   سے آئے ہو؟ کہنے لگا:  سَمرقَندسے۔میں   نے پھرپوچھا :   کتناعرصہ ہواوہاں   سے چلے ہوئے؟  جوابدیا:  دَس برس سے زیادہ ہوگئے ہیں   ۔میں   بڑے تَعَجُّب سے اُس کو دیکھنے لگا،  اِس پر وہ بولا:  اے شقیق (رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ) ! کیا دیکھ رہے ہو؟ میں   نے کہا:  تمہاری کمزوری اور سَفر کی درازی نے مجھے مُتَعَجِّب کر دیا۔ کہنے لگا :   اے شقیق! سفر کی دُوری کو میرا شوق (یعنی عشق)  قریب کر دے گا اور میری کمزوری کا سَہارا میرا مولا  عَزَّوَجَلَّ ہے۔ اے شقیق! تم ایک ضَعِیف (یعنی کمزور)  بندے پر تَعَجُّب کر رہے ہو! اِس کو تو اِس کا مالِک عَزَّوَجَلَّ چلارہا ہے۔   ؎

ناتُوانی  کا اَلَم  ہم  ضُعَفا  کو  کیا  ہو!

ہاتھ پکڑے ہوئے مولیٰ کی تُوانائی ہے

 (ذوقِ نعت)

پھر اُس نے دو عربی اَشعار پڑھے جن کا ترجَمہ یہ ہے:   (۱) …اے میرے آقا عَزَّوَجَلَّ!  میں   تیری زِیارت کو آرہا ہوں   اور عِشق کیمنزلیں   کَٹھِن ہیں   ،  لیکن شوق (عشق)  اُس شخص کی مدد کیاکرتا ہے جس کی مال مدد نہیں   کرتا۔ (۲) …وہ ہرگز عاشِق نہیں   جس کو راستے کی ہَلاکت کا خوف ہو اور نہ ہی وہ عاشِق ہے جس کو راستوں   کی سختی نے چلنے سے روک دیا۔  (رَوضُ الرَّیاحین ص۱۲۰)  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔  اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

ہم کو تواپنے سائے میں   آرام ہی سے لائے

حیلے بہانے والوں   کو یہ راہ ڈر کی ہے

 (حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۸۸)   عید قربان  میں   جان قربان کردی

          حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دِینار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ ِالْغَفَّار فرماتے ہیں   کہ میں   ایک قافِلے کے ہمراہ حجِّ بیتُ اللہ شریفکے لئے جارہا تھا،  راستے میں   ایک نوجوان حاجی دیکھا جو بِغیر زادِراہ پیدل چل رہاتھا۔میں   نے اُس کو سلام کیا، اُس نے سلام کاجواب دیا ۔ میں   نے پوچھا:  اے نوجوان! کہاں   سے آئے ہو؟  اُس نے جواب دیا:  اُسی  (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ)  کے پاس سے۔پوچھا:  کہاں   جارہے ہو؟  کہا:  اُسی  (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ) کے پاس۔ پوچھا:   زادِراہ  (یعنی سامانِ سفر) کہا ں   ہے؟  بولا:  اُسی  (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ)  کے ذِمّۂ کرم پر ہے۔ میں   نے کہا:  یہ طوِیل راستہ بِغیرتوشے (یعنی کھانے پینے)  کے طے نہیں   ہوگا،  تیرے پاس کچھ ہے بھی ؟  بولا:  جی ہاں   ، میں   نے گھر سے نکلتے وَقْت پانچ حُرُوف زادِراہ کے طورپرلے لئے تھے۔پوچھا:  وہ پانچ حُروف کون سے ہیں   ؟  اُس نے کہا:   اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا یہ فرمان:   کٓھٰیٰعٓصٓ۔پوچھا :  اِن حُروف سے کیا مُراد ہے؟  کہا:  کاف  سے ’’کافی ‘‘ یعنی کِفایت کرنے والا،  ھا  سے ’’ھادی ‘‘ یعنی ہدایت کرنے والا،  یا سے پناہ دینے والا،  عَین  سے’’عالِم ‘‘ یعنی جاننے والا،  صاد سے صادِق ‘‘ یعنی سچّا تو جس کا رفیق کافی و ہادی و مُؤوی (یعنی پناہ دینے والا)  و عالِم اور صادِق ہو وہ کیسے ضائِع یاپریشان ہوسکتاہے اور اُسے کیا ضَرورت ہے کہ زادِراہ اور پانی اُٹھائے پھرے! حضر تِ سیِّدُنا مالِک بن دینار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ ِالْغَفَّار فرماتے ہیں   کہ اُس حاجی کا کلام سُن کر میں   نے اُس کو اپنی قمیص پیش کی ۔ اُس نے قَبول کرنے سے

Index