اِنکار کرتے ہوئے کہا: ’’اے شیخ! دُنیا کی قمیص سے بَرَہْنہ رہنا بہتر ہے کیوں کہ دُنیاکی حلال چیزوں پرحِساب اور حرام چیزوں پر عذاب ہے۔ ‘‘ جب رات کا اَندھیرا چھا گیا تو اُس حاجی نے مُنہ آسمان کی طرف اُٹھایا اور اس طرح ’’مُناجات ‘‘ کرنے لگا: ’’اے وہ پاک ذات! جس کو بندوں کی اِطاعت سے خوشی ہوتی ہے اور بندوں کے گناہوں سے کچھ نُقصان نہیں ہوتا ، مجھے وہ چیز یعنی عبادتعطافرماجس سے تجھے خوشی ہوتی ہے اور وہ چیز یعنی گناہمُعاف فرمادے جس سے تیرا کوئی نقصان نہیں ۔ ‘‘ جب لوگوں نے اِحرام باندھ کر ’’لَبَّیْک ‘‘ کہی تو وہ خاموش تھا، میں نے پوچھا: تم لَبَّیْککیوں نہیں کہتے؟ اُس نے کہا: مجھے ڈرہے کہ میں کہوں : لَبَّیْکاور وہ فرما دے: ’’لَالَبَّیْکَ وَلَا سَعْدَیْکَ وَلَا اَسْمَعُ کَلَامَکَ وَلَااَنْظُرُ اِلَیْکَ ‘‘ یعنی نہ تیری لَبَّیْک قَبول ہے اور نہ سَعْدَیْک اور نہ میں تیرا کلام سُنوں اور نہ تیری طرف دیکھوں ۔ پھر وہ چلا گیا میں نے اُس حاجی کو سارے راستے میں پھر کہیں نہ دیکھا، بِالآخِر مِنیٰ شریف میں وہ نظر آگیا اُس وَقت وہ کچھ عَرَبی اَشعار پڑھ رہا تھا جن کا ترجَمہ یہ ہے: (۱) …بے شک وہ حبیب (یعنی پیارا) جس کو میرا خون بہنا پسندیدہ ہے تو میرا خون اُس کے لئے حلال ہے حَرَم میں بھی اور حَرَم کے باہَر بھی (۲) …خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر میری رُوح کو علم ہوجائے کہ وہ کس ذاتِ اَقدس سے مَحَبَّت کرتی ہے تو وہ قدم کے بجائے سَر کے بَل کھڑی ہوجائے (۳) …اے مَلامَت کرنے والے! اُس کے عِشق پرمجھے مَلامَت نہ کرکہ اگر تجھے وہ نظر آجائے جو میں دیکھتا ہوں تو تُو کبھی بھی مجھے مَلامَت نہ کرے (۴) لوگوں نے عید کے دِن بِھیڑ، بکرِیوں اور اُونٹوں کی قُربانی کی اور محبوب نے اس دِن میری جان کی قُربانی کی (۵) …لوگوں کا حج ہُوا ہے اورمیرا حج میرے محبوب کے پاس جانا ہے۔ لوگوں نے قُربانیاں ہدِیَّہ کیں اورمیں نے اپنی جان اور اپنے خون کی قُربانی کا تحفہ پیش کیا۔ اشعار پڑھنے کے بعد وہ گڑگڑا کرعرض گزار ہوا: ’’اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! لوگوں نے قُربانیاں کیں اور تیراقرب حاصل کیا اور میرے پاس تو کچھ بھی نہیں جس کے ساتھ تیرا قرب (یعنی نزدیکی) حاصل کر سکوں سِوائے اپنی جان کے، تو اِسی کو تیری بارگاہ میں نَذر کرتا ہوں تُو اِسے قَبول فرما۔ ‘‘ یہ کہنے کے بعد اُس حاجی نے ایک چیخ ماری، زمین پر گرا اور اُس کی رُوح قَفَسِ عُنصُری سے پرواز کر گئی۔حضرتِ سیِّدُنا مالِک بن دِینار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ ِالْغَفَّار فرماتے ہیں : پھریکایک غیب سے ایک آواز گونج اُٹھی: ’’یہ عَزَّوَجَلَّ کا پیارا ہے جو عِشقِ الٰہی کی تلوار سے قَتْل ہُوا ہے۔ ‘‘ پھر میں نے اُس خوش نصیب حاجی کی تَجہیز وتکفین کی۔ (رَوضُ الرَّیاحین ص ۹۹) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
کیا نذْر کروں پیارے! شے کون سی میری ہے
یہ رُوح بھی تیری ہے ، یہ جان بھی تیری ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۸۹) پُر اَسرار حاجی
حضرتِ سیِّدُنا بِشرحافی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الۡکافی فرماتے ہیں : میں نے میدانِ عَرَفات میں ایک حاجی صاحِب کو دیکھاجو کہ رو رو کرعَرَبی میں یہ اَشعار پڑھ رہے تھے ۔ ترجَمہ: (۱) … وہ ذات ہر عَیب سے پاک ہے، اگر ہم اپنی آنکھوں سے کانٹوں اور گرم سُوئیوں پر بھی اُس کوسَجدہ کریں تو پھر بھی اُس کی نِعمتوں کے حق کا دَسواں حصَّہ بلکہ دَسویں کا بھی دَسواں نہیں نہیں بلکہ اُس کا بھی دَسواں حصَّہ ادا نہ ہو (۲) …اے پاک ذات! میں نے کتنی مرتبہ لغزِشیں (یعنی خطائیں ) کیں اور کبھی بھی اپنی نافرمانیوں میں تجھے یاد نہ کیا مگر اے میرے مالِک عَزَّوَجَلَّ! تو ہمیشہ مجھے دَرپردہ یاد فرماتا رہا (۳) …میں نے نہ جانے کتنی ہی مرتبہ گناہوں کے وَقت جَہالت سے اپنا پردہ فاش کیا مگر تو نے ہمیشہ مجھ پر لُطف وکَرَم ہی کیا اور اپنے حِلْم کے ساتھ میری پردہ پوشی فرمائی۔