یَارَسُولَ اللہ! میرے قریب تشریف لایئے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قریب تشریف لا کر فرمایا: مَاحَاجَتُکِ؟ یعنی تیری کیا حاجت ہے؟ ہرنی بولی: اس پہاڑ میں میرے دو بچے ہیں ، آپ مجھے کھول دیجئے، میں ان دونوں کو دودھ پلا کر آپ کی خدمت میں حاضِر ہوجاؤں گی۔فرمایا: کیا تُو ایسا کرے گی؟ ہرنی نے عرض کی : اگر میں ایسا نہ کروں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے عِشَار کا عذاب دے۔ (عِشار ایسی حامِلہ اونٹنی کو کہتے ہیں جس کا دس ماہ گزر جانے کے بعد بھی بچّہ باہَر نہ آئے، اور اس بے چاری پر بوجھ لادا جائے جس کے سبب وہ تکلیف سے خوب بِلبِلائے، چیخے چلّائے) تو خاتَمُ الْمُرْسَلین ، رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے کھول دیا اور اس نے جا کر اپنے بچّوں کو دودھ پلایا اور اِس کے بعد وہ آگئی اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے باندھ دیا۔اتنے میں اعرابی بیدار ہوگیا اور اس نے دیکھ کر عَرْض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! آپ کو کوئی کام ہے؟ فرمایا: ہاں اِس ہِرنی کو چھوڑ دے۔ اُس نے اُسے چھوڑ دیا۔ وہ چوکڑیاں بھرتی ہوئی جارہی تھی اور یہ کہہ رہی تھی: اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَاَنَّکَ رَسُوْلُ اللہ (میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اور بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں ) ۔
(المعجم الکبیر ج۲۳ ص۳۳۱ حدیث ۷۶۳ ، الخصائص الکبری ج۲ ص۱۰۱)
ہاں یَہیں کرتی ہیں چِڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہِرنی داد
اِسی در پر شُتَرانِ ناشاد گِلۂ رنج و عَنا کرتے ہیں
(حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۲۷) اُونٹ نے طوافِ کعبہ کیا اور پھر۔۔۔۔
815ھ کا واقِعہ ہے، ایک اونٹ اپنے مالِک سے خود کو چُھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا، یہاں تک کہمَکَّۂمکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پہنچا اور سیدھامسجدُالحرام میں داخِل ہو گیا، لوگ پکڑنے دوڑے مگر کسی کے ہاتھ میں نہ آیا، اُس نے کعبۂ مُشَرَّفَہ کے گرد سات چکّر لگائے پھر حَجَرِ اَسوَد پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے، اِس کے بعد میزابِ رَحْمت کے سامنے کھڑا ہو گیا، اُس کی آنکھوں سے ٹَپ ٹَپ آنسو گر رہے تھے، اِسی طرح روتے روتے وہ زمین پر آرہا اور اُس کا دَم نکل گیا ۔ لوگوں نے اُسے بَصَد اِحتِرام اُٹھایا اور صَفا و مَروہ کے درمیان دفنا دیا ۔ ( کتاب الحج ص ۱۱۴ملخصاً) ( اُس دور میں آج کل کی طرح کا مُعاملہ نہ تھا وہاں تدفین ممکن تھی چُنانچِہ شاہ عبد العزیز مُحدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے بُستانُ المُحدِّثین صفحہ 298پر لکھا ہے : مشہور محدِّث حضرت سیِّدُنا امام نَسائی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی صفاو مروہ کے درمیان مدفون ہیں ) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
تصدُّق ہو رہے ہیں لاکھوں بندے گرد پھر پھر کر
طوافِ خانۂ کعبہ عجب دلچسپ منظر ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۲۸) اُونٹوں نے آقا کو سجدہ کیا