عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

فرماؤں   گا اور جو تم پر سلام بھیجے گا میں   اُس پر سلامَتی نازل فرماؤں   گا۔  ‘‘ (مسند احمد ج ۱ ص ۴۰۶حدیث ۱۶۶۲) بطورِ یاد گاراس مقامِ پُر انوار پر ’’مسجد ِسجدہ ‘‘ بنادی گئی تھی۔ آج کل وہ جدید تعمیر کے ساتھ موجود تو ہے مگر وہاں   آوَیزاں   تختی پر ’’ مسجِد ابوذر  ‘‘ لکھا ہوا ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۸) مسجدِ ذِباب (یا مسجد رایہ)

          ’’ ثَنِیَّۃُ الْوَداع ‘‘ سے جَبَلِ اُحُدکی طرف جاتے ہوئے اُلٹے ہاتھ پر مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًسے شِمال  (NORTH) کی طرف ’’ذِباب ‘‘ نامی پہاڑ پرغزوۂ تَبوک سے واپَسی پر یا بعض رِوایات کے مطابِق’’ غزوۂ خَنَدق ‘‘ کے موقع پر سرکارِ مدینۂ منوَّرہ،  سردارِ مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا خَیمہ شریف نَصْب کیا گیا تھا ۔ روایت ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے’’ جَبَلِ ذِباب  ‘‘ پر نَماز بھی ادا فرمائی ہے۔ (جذب القلوب۱۳۶ ،  ۱۳۷، وفاء الوفاء ج۲ص۸۴۵) اُس مبارَک پہاڑ پرامیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا عمربن عبدالعزیزرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بطورِ یادگار ایک مسجِد بنائی جسے’’ مسجدِ ذِباب ‘‘ یا ’’ مسجِد رایہ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اِسے ماضی میں   ’’مسجدِقَرین ‘‘ اور ’’ مسجِد زاوِیہ ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۹) مَسْجِدِ عَیْنَیْن

        یہ مسجِد شریف مزارِحضرتِ سیِّدُناحمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دروازۂ مبارَکہ کے سامنے جانبِ قبلہ واقِع پہاڑ’’ جَبَلُ الرُّماۃ ‘‘ پر واقِع تھی ،  اُحُد کے دن لشکرِ اسلام کے تیر انداز اِس پر کھڑے تھے۔ کہتے ہیں   ،  سیِّدُناحمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کواِسی مقام پربَرچھی لگی تھی۔ سیِّدُناجابِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، شَہَنشاہِ خیرُالْاَنام صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے مَع صَحابۂ  کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَانوہاں   مُسلَّح نَماز ادا فرمائی تھی۔  (وفاء الوفاء ج۲ص۸۴۸۔۸۴۹)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  (۱۰) مسجدِ مَشرَبہ اُمِّ ابراھیم

        یہ مسجِد شریف حَرَّۂ شَرقِیَّہ کے قریب نَخْلِستان  ( یعنی کھجور کے باغ)  میں   واقِع تھی۔ مَشرَبہ یعنی باغ اور اُمِّ ابر اھیم سے مُراد اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ سیِّدَتُنامارِیہ قِبطِیہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا  ہیں   ، یہ ان ہی کا باغ تھا اور حقیقی مَدَنی مُنّے ،  عاشِقانِ رسول کی آنکھوں   کے تارے ،  مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے دُلارے حضرت سیِّدُنا ابراھیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی ولادتِ باسعادت یہیں   ہوئی تھی۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کا یہاں   نَماز پڑھنا ثابِت ہے۔ (جذب القلوب ص۱۲۷) آج کل یہ مقدّس مَشْرَبہ یعنی مبارَک باغ قبرِستان بنا ہوا ہے اور اسے چار دیواری میں   بند کر دیا گیا ہے اوریہاں   عاشقانِ رسول کا داخِلہ ممنوع ہے،  قبرِستان کے درمیان ایک چھوٹی سی قدیم مسجِد ہے جس کے صِحن میں   ایک نہایت ہی خَستہ حال کُنواں   ہے۔ ایک مُؤَرِّخ کابیان ہے:  ’’ مجھے جب بھی داخِلے میں   کامیابی ملی،  میں   نے اِس مسجِد میں   تدفین کا سامان پایا ہے!  ‘‘

 

Index