آیا اور اُسے چُوما۔حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہ بن صَفوان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان نے اُس سے فرمایا: ’’اے جِنّ! اب آپ نے اپنا عمرہ اداکرلیا ہے، ہمارے بچّے خوفزدہ ہیں لہٰذا آپ واپَس چلے جائیے۔ ‘‘ چُنانچِہ وہ جس طرف سے آیا تھا اُسی طرف سے واپَس چلاگیا۔ (ایضاً ص۱۰۰) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
شَرَف دے حج کامجھے بَہرِ مصطَفٰے یاربّ
روانہ سُوئے مدینہ ہو قافِلہ یاربّ
(وسائلِ بخشش ص۹۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۱۸) پانی کی طرف رہنمائی کرنے والا جنّ
حضرت ِ سیِّدُناعثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دَورِخلافت میں عاشقانِ رسول کا ایک قافِلہ حج کے ارادے سے نکلا، انہیں راستے میں پیاس لگی، ایک کنواں نظر آیامگر اس کا پانی کھاراتھا ۔لہٰذ اوہ آگے بڑھ گئے ، حتّٰی کہ شام ہوگئی لیکن پانی نہ ملا۔قافِلہ رات بھر چلتا رہا یہاں تک کہ ایک کَھجور کے دَرَخْت کے پاس پہنچا، یکایک ایک سیاہ فام موٹاآدَمی نُمودار ہوا ، اُس نے کہا: اے قافِلے والو! میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے سنا ہے : ’’ جو شخص اللہ تَعَالٰی اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ مسلمان بھائیوں کیلئے وُہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے اور مسلمان بھائیوں کے لیے وہ چیز ناپسند کرے جو اپنے لئے ناپسند کرتاہے ۔ ‘‘ تم لوگ یہاں سے آگے بڑھو، ایک ٹیلا آئے گا پھراپنی دائیں جانب مُڑ جانا وہاں تمہیں پانی مل جائے گا ۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ اللہ کی قسم! میرے خیال میں یہ شیطان ہے، دوسرے شخص نے تردید کرتے ہوئے کہا: ’’شیطان اِس قسم کی باتیں نہیں کرتا، یہ کوئی مسلمان جِنّ ہے ۔ ‘‘ بَہَرحال وہ لوگ چل پڑے اوراُس جنّ کی نشاندہی کے مطابق پانی تک پَہُنچ گئے ۔ (ایضاً ص۱۰۹مُلَخّصاً)
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دیدیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۱۹) غوثِ اعظم علیہ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کے قافلۂ حج کا پُراَسرارجوان
شَہَنْشاہ ِ بغداد ، حُضورغوثِ پاک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَزَّاق ایک باراپنے مُرِیدین کا قافِلہ لئے حج کے لئے روانہ ہوئے، جب یہ قافِلہ کسی منزل پر اترتا تو سفید کپڑے میں ملبوس ایک پُراَسرار جوان کہیں سے آجاتا، وہ اُن کے ساتھ کھاتا پیتانہیں تھا۔ حُضور غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے اپنے مُریدوں کو وصیَّت (یعنی تاکید ) فرمائی تھی کہ وہ اِس ’’جوان ‘‘ سے بات چیت نہ کریں ۔ قافِلہمکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں داخِل ہوا اورایک گھر میں قِیام پذیر ہوگیا۔ جب یہ حُجّاجِ کرام گھرسے نکلتے تو وہ پُراَسرارجوان گھر کے اندر داخِل ہوجاتا اور جب یہ داخِل ہوتے تووہ باہَر نکل جاتا۔ایک مرتبہ سب لوگ نکل گئے لیکن قافِلے کے ایک حاجی صاحِب بیتُ الْخلَاء (wash room) میں رہ گئے ، اِسی دَوران وہ پُراسرارجوان گھر میں داخل ہوا تو اُسے کوئی نظر نہیں آیا ۔ اُس نے تَھیلی کھولی اور ایک گَدَّر (یعنی اَدھ پکّی کَھجور) نکال کر کھانے لگا ۔جب وہ حاجی صاحِب بیتُ الخَلاء سے نکلے اور اُن کی نظر اُس