بارے میں اِستِفسارکیا توبولا: ہم سات افراد جِہاد میں گئے، غیر مسلِموں نے ہمیں گرفتار کر لیا، جب بَاِرادۂ قَتْل میدان میں لائے، میں نے یکایک اُوپر سر اُٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان میں سات دروازے کُھلے ہیں اور ہر دروازے پرایک حُور کھڑی ہے، جیسے ہی ہمارے ایک رفیق کوشہید کیا گیا ، میں نے دیکھا کہ ایک حور ہاتھ میں رومال لیے اُس شہید کی روح لینے کے لیے زمین پر اُتر پڑی، اِسی طرح میرے چھ رُفَقا شہید کئے گئے اور سب کی رُوحیں لینے ایک ایک حُور اُترتی رہی، جب میری باری آئی تو ایک درباری نے اپنی خدمت کے لیے مجھے بادشاہ سے مانگ لیا اور میں شہادت کی سعادت سے محروم رہ گیا۔ میں نے ایک حور کو کہتے سنا: ’’اے محروم! آخِر اِس سعادت سے تو کیوں محروم رہا؟ ‘‘ پھر آسمان کے ساتوں دروازے بند ہوگئے۔تو اے بھائی ! مجھے اپنی مَحرومی پرسخْت افسوس ہے۔کاش! مجھے بھی شہادت کی سعادت عنایت ہو جاتی یِہی وہ حاجت ہے جس کا آپ نے دُعا میں سنا۔حضرتِ سیِّدُنا قاسم بن عثمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں : میرے نزدیک ان ساتوں خوش نصیبوں میں سب سے افضل یِہی ساتواں ہے جو قَتْل سے بچ گیا، اِس نے اپنی آنکھوں سے وہ روح پرور منظر دیکھا جو دوسروں نے نہیں دیکھاپھر یہ زندہ رہااور انتِہائی ذَوق وشَوق سے نیکیاں کرتا رہا۔ (المستطرف ج ۱ ص۲۴۹) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
مال و دولت کی دعا ہم نہ خدا کرتے ہیں
ہم تو مرنے کی مدینے میں دُعا کرتے ہیں
(وسائلِ بخشش ص۱۴۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۶۶) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خُفیہ تدبیر
حضرتِ سیِّدُنا ابومحمد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمَدفرماتے ہیں : اللہ رحمٰن کے بھروسے پرتین مسلمان بغیر زادِراہ حج کے لئے روانہ ہوئے۔دورانِ سفراُنہوں نے عیسائیوں کی ایک بستی میں قِیام کیا، ان میں سے ایک کی نظر ایک خوبصورت نَصرانی (کرسچین) عورت پر پڑی تو اُس پر اس کا دل آگیا۔ وہ ’’عاشِق ‘‘ حیلے بہانے سے اُس بستی میں رُک گیا اوردونوں حاجی آگے روانہ ہو گئے، اب اُس عاشِق نے اپنے دل کی با ت اُس عورت کے والِد سے کی، اُس نے کہا : ’’اِس کامَہر تم نہیں دے سکو گے۔ ‘‘ پوچھا: ’’کیامَہر ہے ؟ ‘‘ جواب ملا: ’’عیسائی (کرسچین) ہو جاؤ۔ ‘‘ اُس بدقِسمت نے عیسائیت اِختیار کر کے اُس عورت سے نکاح کر لیا اور دو بچّے بھی پیدا ہوئے۔ آخِرَش وہ مَرگیا ۔ اُس کے دونوں رُفَقا حاجی کسی سفرمیں دوبارہ اُس بستی سے گزرے تو تمام حالات سے باخبر ہوئے، انہیں سخت افسوس ہوا، جب وہ نصرانیوں (یعنی عیسائیوں ) کے قبرِستان کے قریب سے گزرے تو اُس (عاشِقِ ناشاد) کی قبر پر ایک عورت اور دو بچّوں کو روتے پایا، وہ دونوں حاجی بھی (اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر یاد کرکے) رونے لگے، عورت نے پوچھا: ’’آپ لوگ کیوں رو رہے ہیں ؟ ‘‘ اُنہوں نے مرنے والے کی مسلمان ہونے کی حالت میں نَماز و عبادت اور زُہدوتقویٰ وغیرہ کا تذکِرہ کیا۔ جب عورَت نے یہ سنا تو اُس کا دِل اسلا م کی طرف مائِل ہوگیا اور وہ اپنے دونوں بچّوں سَمیت مسلمان ہو گئی ۔ (الروض الفائق، ص۱۶ ملخصا ) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم