پھیر لیں گے ! لہٰذا نَفْس کے تعاون سے مُعتقدین میں اپنا وقار برقرار رکھنے کے جذبے کے سبب عبادت پر اِستِقامت کی شدّت اُس کو نرمی وآسانی محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ باطِنی طور پر لذَّتوں کی لذَّت اور تمام شَہوتوں (یعنی خواہشات) سے بڑی شَہوت ( یعنی عوام کی عقیدت سے حاصل ہونے والی لذّت ) کا اِدراک (یعنی پہچان ) کر لیتا ہے، وہ اِس خوش فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ میری زندَگی اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کی مرضی کے مطابِق گزررہی ہے، حالانکہ اُس کی زندَگی اُس پوشیدہ ( حُبِّ جاہ یعنی اپنی واہ واہ چاہنے والی چُھپی) خواہِش کے تَحْت گزرتی ہے جس کے اِدْراک (یعنی سمجھنے) سے نہایت مضبوط عَقلیں بھی عاجِزو بے بس ہیں ، وہ عبادتِ خداوندی میں اپنے آپ کومُخلِص اورخود کو اللہ تَعَالٰی کے مَحارِم (حرام کردہ مُعامَلات ) سے اِجتِناب (یعنی پرہیز) کرنے والا سمجھ بیٹھتا ہے! حالانکہ ایسا نہیں ، بلکہ وہ توبندوں کے سامنے زَیب وزینت اورتَصَنُّع (یعنی بناوٹ) کے ذَرِیعے خوب لذّتیں پار ہا ہے، اسے جو عزّت و شُہرت مِل رہی ہے اِس پر بڑا خوش ہے۔ اِس طرح عِبادتوں اورنیک کاموں کا ثواب ضائِع ہوجاتا ہے اور اس کا نام مُنافِقوں کی فِہرِست میں لکھا جاتا ہے اور وہ نادان یہ سمجھ رہا ہوتاہے کہ اسے اللہ عَزَّ وَجَلَّکا قُرْب حاصل ہے!
مرا ہر عمل بس تِرے واسِطے ہو
کر اخلاص ایسا عطا یاالٰہی
(وسائلِ بخشش ص۷۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اپنے منہ میاں مٹھّو بننے والے حاجیوں کے لئے مَدَنی پھول
بعض مالدار با ر بار حج و عمرہ کوجاتے ، اس کی گنتی خوب یاد رکھتے، بارہا بِغیر ضَرورت بے پوچھے لوگوں کو اپنے حج و عمرہ کی تعداد بتاتے اور سفرِمدینہ کے ’’ کارنامے‘ ‘ سناتے ہیں ، ان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ کہیں رِیاکاری کی تباہ کاری میں نہ جا پڑیں ۔ حطیم شریف کا داخِلہ بھی حالانکہ عین کعبۂ مُشَرَّفہ ہی کاداخِلہ ہے جو ہر ایک کو نصیب ہوسکتا ہے مگر اس کا تذکِرہ کوئی نہیں کرتا اور اگر کسی کو دروازاۂ کعبہ کے اندر داخِلہ یا کسی مُلک کے سربراہ کے ساتھ سُنَہری جالیوں کے اندر حاضِری کی سعادت مل جائے تو اپنے مُنہ سے اپنے فضائل بیان کرتے نہیں تھکتا۔ اِسی طرح بعض لوگ اپنے فضائل اس طرح بیان کرتے بھی سنائی دیتے ہیں کہ صاحِب! وہاں تو ہم نے جو مانگا وہ ملا، ہر تمنّا پوری ہوئی، فُلاں کی ملاقات کی خواہِش ہوئی تھوڑی ہی دیر میں مل گئے وغیرہ۔ اس طرح اپنے مُنہ’’میاں مِٹھّو ‘‘ بن کر یہ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ ہمارا وَقار بُلند ہو گا حالانکہ ایسا ہونا ضَروری نہیں ، ہو سکتا ہے بعض لوگ اس کا مطلب یہ بھی لیتے ہوں کہ’’یہ حاجی صاحِب ‘‘ مقاماتِ مقدّسہ کی عَظَمت کے بیان کے ساتھ ساتھ اپنی ’کرامت‘ بھی سنا رہے ہیں ! ہاں بطورِ تَحْدِیثِ نعمت یا دوسروں کو رغبت دلانے کی نیّت سے اپنے اوپر ہونے والے انعاماتِ الہٰیّہ کے تذکرے میں حَرَج نہیں ۔ بَہَرحال ہر ایک کو اپنی نیّت پر غور کر لینا ضَروری ہے کہ میں فُلاں بات کیوں کہنے لگا ہوں ۔ اگر بتانے میں آخِرت کی بھلائی کا پہلو ہے توبولے ورنہ چُپ رہے۔فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’جو اللہ اور قِیامت پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے ۔ ‘‘ (بُخاری ج ۴ ص۱۰۵حدیث۶۰۱۸)
کیااپنے حج وعمرہ کی تعداد بیان کرناگناہ ہے؟