عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

یاد رہے! مدینۃُالمنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  میں   صِرْف اُسی کو قِیام کی اجازت ہے جو یہاں   کا احتِرام برقرار رکھ سکتا ہو ،  جو ایسا نہیں    کر سکتا اُس کیلئے یہاں   مُستِقل یا زیادہ عرصے رِہائش کی مُمانَعَت ہے چنانچِہ فتاوٰی رضویہمُخَرَّجہ  جلد10 صَفْحَہ695 پر ہے:    (صاحبِ فتح القدیر فرماتے ہیں   )  میں   کہتا ہوں   :   کیونکہ مدینۂ طیِّبہ میں   رحمت اکثر، لُطف وافِر،  کرم سب سے وسیع اورعَفْوْ (یعنی مُعافی ملنا)  سب سے جلدی ہوتا ہے جیسا کہ شاہِد مُجرَّب (یعنی تجرِبے سے ثابت)  ہے وَالْحَمْدُلِلّٰہِ ربِّ العٰلمین۔ اس کے باوُجُوداُکتا نے کا ڈر اور وہاں   کے احترام وتَوقیر میں   قلّت ِادب کا خوف تو موجود ہے او ریہ بھی تو مُجاوَرَت سے مانِع (یعنی مستقل رہائش سے رکاوٹ)  ہے،  ہاں   وہ افراد جو فِرِشتہ صفت ہوں   تو اُن کا وہاں   ٹَھہرنا اور (طویل رِہائش اختیار کر کے)  فوت ہونا سعادتِ کامِلہ ہے ۔

مدینے میں   استِنجاء کرنے کے مُتعلِّق حکایت

     اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فتاوٰی رضویہ جلد10 صَفْحَہ689 پر ’’اَلْمَدخَل ‘‘  کے حوالے سے حِکایت نَقْل کرتے ہیں   :   ’’السَّیِّدُ الْجَلیل ابوعبدُاللہ القاضی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بارے میں   بیان کیا گیا کہ انھیں   شہرِ مدینہ میں   رَفْعِ حاجت کی ضَرورت پیش آئی تو وہ شہر میں   ایک مقام کی طرف گئے اور وہاں   قَضاء ِ حاجت کا اِرادہ کیا تو غیب سے آواز آئی جو اس عمل سے انھیں   منع کررہی تھی،  تو انھوں   نے کہا :   ’’تمام حُجّاج ایسا کرتے ہیں   ،   ‘‘ تو جواب میں   تین دفعہ آواز آئی:   کہاں   کے حُجّاج؟  کہاں   کے حُجّاج؟  کہاں   کے حُجّاج؟  پھر وہ شہر سے باہَر چلے گئے اور رَفْعِ حاجت  (یعنی پیشاب وغیرہ)  کی اور پھر لوٹے ۔

مدینے کا اصل قیام آقا کے احکام پر عمل کرنا ہے

          آگے چل کر صاحِبِ مَدْخَل کے حوالے سے مزید تحریر ہے:  حُضُور   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مُجاوَرَت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اَوامِر اِتِّباع (یعنی احکامات کی بجا آوری)  اور نواہی سے اِجْتِناب (یعنی جن باتوں   سے منع فرمایااُن سے بچنے)  کی صورت میں   ہے خواہ انسان کسی جگہ مُقیم ہو،  اور اَصْلاً  (حقیقتاً )  مُجاوَرَت یِہی ہے۔                            (فتاوی رضویہ مخرجہ ج۱۰ ص ۶۸۹)

غمِ مصطَفٰے جس کے سینے میں   ہے

کہیں   بھی رہے وہ مدینے میں   ہے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’پیارا پیارا ہے مدینہ ‘‘ کے سترہ حُرُوف کی نسبت سے مدینۃُ المنوَّرہ کی 17خُصُوصِیّات

 (یوں   تو مدینے میں   بے شمار خوبیاں   ہیں   مگر حصولِ بَرَکت کیلئے یہاں   صِرف 17بیان کی ہیں   )

        ٭روئے زمین کا کوئی ایساشہر نہیں   جسکے اسمائے گرامی یعنی مبارَک نام اتنی کثرت کوپہنچے ہوں   جتنے مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے نام ہیں   ،  بعض عُلما ء نے 100تک نام تحریر کئے ہیں   ٭ مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً ایسا  شہر ہے جس کیمَحَبَّت اورہِجرو فُرقت میں   دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں   اور سب سے زیادہ تعداد میں   قصیدے لکھے گئے ،  لکھے جارہے ہیں   اور لکھے جاتے رہیں   گے ٭اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب ،  حبیبِ لبیب ،  طبیبوں   کے طبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اس کی طرف ہجرت کی اور یہیں   قیام پذیر رہے ٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اِس کانام طابہ رکھا ٭سرکارِ عالی وقار ،  مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب سفر سے واپَس تشریف لاتے تومدینۃُ الْمنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے قریب پہنچ کر زیادتیِ شوق

Index