کیا کروں اِذْن مجھے اِس کا خُدا نے نہ دیا
(سامانِ بخشش)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہم سب کو چاہیے کہ ہم بھی اپنے دل میں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی محبت بڑھائیں اور قلب میں دیدار کی تمنّا پر وان چڑھائیں ۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّکبھی تو ہماری بھی قسمت چمک اٹھے گی۔ کبھی تو وہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کرم فرما ہی دیں گے۔
سُنا ہے آپ ہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں
کبھی میرے بھی گھر میں ہوچَراغاں یارسولَ اللہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۱۰۱) مشہور عاشقِ رسول علّامہ یوسُف بن اسمٰعیل نَبْہَانی کا اندازِادب
خلیفۂ اعلیٰ حضرت ، فقیہ ِاعظم ، حضرتِ علّامہ ابو یوسف محمد شریف مُحدِّثِ کوٹْلَوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ایک مرتبہ جب میں حج کرنے گیا تو مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی حاضِری میں سبز سبز گنبد کے دیدار سے مُشَرَّف ہوتے وَقْت میں نے ’’بابُ السَّلام ‘‘ کے قریب اور گنبدِ خضراء کے سامنے ایک سفید رِیش اور انتِہائی نورانی چِہرے والے بُزُرْگ کو دیکھا جو قبرِ انور کی جانب منہ کرکے دو زانو بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ مشہورو معروف عالمِ دین اورزبردست عاشقِ رسول حضرتِ سیِّدُنا شیخ یوسُف بن اسمعٰیل نَبْہَانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّ بَّانِی ہیں ۔میں ان کی وَجاہت اور چِہرے کی نورانیّت دیکھ کر بَہُت مُتَأَثِّر ہوا اور اُن کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور ان سے گفتگو کی کوشش کی ، وہ میری جانِب مُتَوجِّہ نہ ہوئے تو میں نے اُن سے کہا : میں ہندوستان سے آیا ہوں اور آپ کی کتابیں حُجَّۃُ اللہ عَلَی الْعالَمِیناور جَواہِرُ الْبِحار وغیرہ میں نے پڑھی ہیں جن سے میرے دل میں آپ کی بڑی عقیدت ہے۔ اُنہوں نے یہ بات سن کر میری طرف مَحَبَّت سے ہاتھ بڑھایا اور مُصَافَحہ فرمایا۔ میں نے ان سے عَرْض کی: حُضور ! آپ قبرِ انور سے اِتنی دُور کیوں بیٹھے ہیں ؟ تو رو پڑے اور فرمانے لگے: ’’میں اِس لائق نہیں ہوں کہ قریب جا سکوں ۔ ‘‘ اِس کے بعد میں اکثر ان کی جائے قِیام پر حاضِر ہوتا رہا اور ان سے’’ سَندِ حدیث ‘‘ بھی حاصِل کی۔سیِّدی قطبِ مدینہ حضرتِ علّامہ شیخ ضِیاء الدّین احمد مَدَنی عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہ الغَنِی فرماتے ہیں : حضرت ِعلّامہ یوسُف نَبْہَانی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّباّنیکی اَہلیۂ مُحْتَرَمہ رَحمۃُ اللہ تعالٰی علیہاکو 84 مرتبہ نبیِّ آخرُ الزّمان، شَہَنْشاہِ کون و مکان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی زیارت کا شَرَف حاصل ہو اہے ۔ (انوارِقطبِ مدینہ ص۱۹۵ ملخصا) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
اُن کے دِیار میں تُو کیسے چلے پھرے گا؟
عطارؔ تیری جُرأَت! تُو جائے گا مدینہ! !
(وسائلِ بخشش ص ۳۲۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد